وہ تو بس وعدۂ دیدار سے بہلانا تھا
ہم کو آنا تھا یقیں اُن کو مُکر جانا تھا
لاکھ ٹھُکرایا ہمیں تو نے مگر ہم نہ ٹلے
تیرے قدموں سے الگ ہو کے کہاں جانا تھا
جن سے نیکی کی توقع ہو وُہی نام دھریں
ایک یہ وقت بھی قسمت میں مری آنا تھا
بے سبب ترکِ تعلق کا بڑا رنج ہوا
لاکھ رنجش سہی اِک عمر کا یارانہ تھا
نزع کے وقت تو دُشمن بھی چلے آتے ہیں
ایسے عالم میں تو ظالم تجھے آ جانا تھا
عمر جب بیت چلی تو یہ کھلا راز نصیر
حسن ناراض نہ تھا عشق کو تڑپانا تھا
Be First to Comment