وہ اتنے نازک ہیں
رُکو تو تم کو بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی اَکیلے اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کہا طبیب نے ، گر رَنگ گورا رَکھنا ہے
تو چاندنی سے بچائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ نیند کے لیے شبنم کی قرص بھی صاحب
کلی سے پوچھ کے کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
بدن کو دیکھ لیں بادَل تو غسل ہو جائے
دَھنک سے خشک کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
ہَوائی بوسہ دِیا پھول نے ، بنا ڈِمپل
اُجالے ، جسم دَبائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جلا کے ’’شمع‘‘ وُہ جب ’’غُسلِ آفتاب‘‘ کریں
کریم رُخ پہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ دو قدم چلیں پانی پہ ، دیکھ کر چھالے
گھٹائیں گود اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ بادَلوں پہ کمر ’’سیدھی‘‘ رَکھنے کو سوئیں
کرن کا تکیہ بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو ایک دانے پہ چاوَل کے لکھتے ہیں ناوَل
سنگھار اُن سے کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
سیاہی شب کی ہے چشمِ غزال کو سُرمہ
حیا کا غازہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
لگائیں خوشبو تو ہو جاتا ہے وَزَن دُگنا
قدم گھسیٹ نہ پائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
سنا ہے پنکھڑی سے رات کان میں پوچھا
یہ جلد کیسے بچائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
گلے میں شبنمی مالا ، کلائی پر تتلی
ہنسی لبوں پہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو اُن کے سائے کے پاؤں پہ پاؤں آ جائے
تو ڈاکٹر کو دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
متاعِ ناز کے ناخن تراشنے ہوں اَگر
کلوروفام سنگھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو پوچھا دُنیا کی نازُک ترین شے کیا ہے
تو ہنس کے سر کو جھکائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
لباس پنکھڑی کی اِک پَرَت سے بن جائے
کلی سے جوتے بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
شمیض کی جگہ عرقِ گلاب پہنا ہے
پھر اُس پہ دُھند لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
قمیض کے لیے شبنم میں پنکھڑی دُھو کر
بدن پہ رَکھ کے دَبائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
لباس اُتاریں جو کلیوں کا وُہ بنے فیشن
گلاب دام چکائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
پراندہ ، چُوڑیاں ، جھمکے ، اَنگوٹھی ، ہار ، گھڑی
اِنہیں تو بھول ہی جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ زیورات کی تصویر ساتھ رَکھتے ہیں
یا گھر بلا کے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی سا جسم وُہ تنہا سنبھالتے ہیں مگر
کنیزیں زُلفیں اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ خوشبو اَوڑھ کے نکلے ہیں اور ضد یہ ہے
لباس سب کو دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
حجاب نظروں کا ہوتا ہے سو وُہ ساحل پر
سیاہ چشمہ چڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو جھوٹ بولنے میں اَوّل آیا اُس نے کہا
وُہ تین روٹیاں کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ تین شبنمی بوندیں ، گُلاب میں دَھر کر
کرن پہ کھانا پکائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ گول گپا بھی کچھ فاصلے سے دیکھتے ہیں
کہ اِس میں گر ہی نہ جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
اُتار دیتے ہیں بالائی ، سادہ پانی کی
پھر اُس میں پانی ملائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
گلاس پانی کا پورا اُنہیں پلانا ہو
نمی ہَوا میں بڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کنیز توڑ کے بادام لائی تو بولے
گِری بھی پیس کے لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ آم چوسنا بھنورے سے گھر پہ سیکھتے ہیں
گُل اُن کو رَقص پڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو غنچہ سونگھ لیں خوشبو سے پیٹ اِتنا بھرے
کہ کھانا سونگھ نہ پائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ اَپنی روٹی گلابوں میں بانٹ دیتے ہیں
کلی کو دُودھ پلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
شراب پینا کجا ، نام جام کا سن لیں
تو جھوم جھوم سے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کباب پنکھڑی کے اُن کی من پسند غذا
ملائی چھیل کے کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو نبضِ ناز کی جنبش کو کر گیا محسوس
طبیب اُس کو بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو ’’نیم ٹھوس‘‘ غذا کھانے کو حکیم کہے
ہَوا بہار کی کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
زُکام ہو گیا دیکھی جو برف کی تصویر
اَب اُن کو یخنی دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
دَوا پلا کے قریب اُن کے بھیجے دو مچھر
کہ اُن کو ٹیکہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
بہت تلاش کی مچھر نے سُوئی گھونپنے کی
رَہا یا دائیں یا بائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
شفا کو اُن کی قریب اُن کے لیٹ کر ٹیکہ
طبیب خود کو لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
’’خیالی کھچڑی‘‘ کو نسخے میں لکھ کے بولا طبیب
اَنار خواب میں کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
دَوا کو کھانا نہیں تین بار سوچنا ہے
طبیب پھر سے بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
اَبھی تو ٹیک لگائے بغیر بیٹھے تھے
وَزیر قسمیں اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ سانس لیتے ہیں تو اُس سے سانس چڑھتا ہے
سو رَقص کیسے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
نزاکت ایسی کہ جگنو سے ہاتھ جل جائے
جلے پہ اَبر لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ تین روٹیوں کا آٹا گوندھ لیں جس دِن
تو گھر میں جشن منائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ دَھڑکنوں کی دَھمک سے لرزنے لگتے ہیں
گلے سے کیسے لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ بول لیتے ہیں یہ بھی خدا کی قدرت ہے
حُروف جشن منائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ گنگنائیں تو ہونٹوں پہ نیل پڑ جائیں
سُخن پہ پہرے بٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو ننھا جملہ کوئی تھک کے چھوڑ دینے لگیں
دِلاسہ گونگے دِلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
گلے میں لفظ اَٹک جائیں اُردُو بولیں تو
غرارے ’’چپ‘‘ کے کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو گاڑھی اُردُو سے نازُک مزاج ہو ناساز
فِر اُن کو ہندی سنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو اُن کا نام کوئی پوچھے تو اِشارے سے
ہَوا میں ’’ل‘‘ بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو پہلی بار ملے اُلٹا اُس سے کہتے ہیں
ہمارا نام بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی جو چٹکے تو نازُک ترین ہاتھوں سے
وُہ دونوں کان چھپائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
سریلی فاختہ کُوکے جو تین مُلک پرے
شِکایت اُس کی لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
غلام چٹکی نہ سننے پہ مرتے مرتے کہیں
خدارا تالی بجائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
پسینہ آئے تو دو تتلیاں قریب آ کر
پروں کو سُر میں ہِلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ سُرخ پھول اَنگیٹھی میں بھر کے بیٹھ گئے
چلیں جو سرد ہَوائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کھلونے عید پہ جگنو کو لے کے دیتے ہیں
تو تتلیوں کو قبائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو تتلی تھک کے کوئی پاس آ کے لیٹے ہے
کمر پہ چڑھ کے دَبائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
گواہی دینے وُہ جاتے تو ہیں پر اُن کی جگہ
قسم بھی لوگ اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کبوتروں سے کراتے تھے بادشاہ جو کام
وُہ تتلیوں سے کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ پانچ خط لکھیں تو ’’شکریہ‘‘ کا لفظ بنے
ذِرا حساب لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
چیونٹیوں کی لڑائی میں بول پڑتے ہیں
جلی کٹی بھی سنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
بس اِس دَلیل پہ کرتے نہیں وُہ سالگرہ
کہ شمع کیسے بجھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کسی کی سالگرہ پر بھی جا نہیں سکتے
کہ تالی کیسے بجائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
غبارہ پھُولتا ہے خود سکڑنے لگتے ہیں
غبارہ کیسے پھلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
چھری سے کیک کو قربان ہوتا دیکھیں اَگر
مہینوں اَشک بہائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
گماں کی دیگ میں خوشبو کی قاش کا حلوہ
بنا کے ختم دِلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
خیال میں بھی جو دعوت کریں عزیزوں کی
تو سال چھٹی منائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ گھُپ اَندھیرے میں خیرہ نگاہ بیٹھے ہیں
اَب اور ہم کیا بجھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
گھروندے ریت سے ساحل پہ سب بناتے ہیں
وُہ بادَلوں پہ بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
شکار کرنے کو جانا ہے ، کہتے جاتے ہیں
پکڑنے تتلی جو جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
شکارِیوں میں اُنہیں بھی جو دیکھیں زَخمی شیر
تو مر تو شرم سے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
اُٹھا کے لاتے جو تتلی تو موچ آ جاتی
گھسیٹتے ہُوئے لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
نکاح خوان کو بس ’’ایک‘‘ بار وَقتِ قَبول
جھکا کے پلکیں دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
ہر ایک کام کو ’’مختارِ خاص‘‘ رَکھتے ہیں
سو عشق خود نہ لڑائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
حنا لگائیں تو ہاتھ اُن کے بھاری ہو جائیں
سو پاؤں پر نہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
غزل یہ اُن کو پڑھائی ہے نو مہینوں میں
کتاب کیسے پڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
چبھے جو پنکھڑی گلشن کی سیر کرتے ہُوئے
دَھنک کی پالکی لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کتاب میں پھنسے اُنگلی وَرَق پلٹتے ہُوئے
تو جلد ساز بُلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو جاں پہ کھیلنا مقصود ہو تو جگنو کو
وُہ سُرخ کپڑا دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
اُٹھائیں تتلیاں تخت اُن کا کچھ بلندی تک
پھر اُس کے بعد گھٹائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
نزاکت ایسی کہ آئینے اُن کو دیکھنے کو
نظر کا عدسہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ خود کو آئینے میں جلد ڈُھونڈ لیتے ہیں
پھر اُس پہ تالی بجائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو دِل بھی توڑنا ہو تو کِرائے کے قاتل
سے ایسا کام کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
چلے جو آندھی تو دو پھول تھام لیتے ہیں
کہ آپ اُڑ ہی نہ جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلاس ساری تو اَلجبرا پڑھتی ہے اُن کو
اَلاختیار پڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
زِیادہ پڑھ نہ سکے اور مسئلہ یہ تھا
کہ ڈِگری کیسے اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو کالی چیونٹی کبھی رَستہ کاٹ دے اُن کا
پلٹ کے گھر چلے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
بلب جلانے سے اِک دَھکا روشنی کا لگے
سو ایک دَم نہ جلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کھلونے آپ سے جی بھر کے کھیلنے کے بعد
پلنگ پہ ساتھ سلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
غضب ہے چھٹی کے دِن گڑیا ، گڈا مل جل کر
اُنہی کی شادی کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ پہلوانوں کو گڑیا کی بانہوں کی مچھلی
اُکھاڑے جا کے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو گرمی لگتی ہے تو پھول پھونک ماریں اُنہیں
مہک سی جائیں ، فضائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو آئینے میں وُہ خود سے لڑائیں آنکھیں کبھی
تو ایک پل میں جھکائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی اُکھاڑنے کو پاؤں رَکھ کے ٹہنی پر
شدید زور لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ صرف باتیں نہیں کرتے کارٹونوں سے
ڈِنر پہ گھر بھی بلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ ہنس راجوں کے ہمراہ جھیل کے اُس پار
کنول پہ بیٹھ کے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
سیاہ شیشہ جو آنکھوں پہ رَکھ کے دیکھیں ہِلال
تو بَدر کیسے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
قدم اُٹھاتے ہُوئے دیر تک وُہ سوچتے ہیں
قدم یہ کیسے اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی ، گلاب ، بہن بھائی اُن کے لگتے ہیں
جو اُن میں عکس بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
چیونٹیوں سے وُہ لے لیتے ہیں قُلی کا کام
پھر اُن کو چینی کھِلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ تتلیوں کی طرح قَدرے اُڑنے لگتے ہیں
جو آنچل اَپنا ہِلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو دُھند چھائے تو وُہ اُس میں غوطے کھاتے ہیں
گھر اَپنے تیر کے جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
بدن پہ روشنی سے بھی دَباؤ بڑھتا ہے
کھلونا دیپ جلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
فریج میں آرزُو رَکھتے ہیں تا کہ تازہ رہے
قسم بھی دُھو کے ہی کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
سنا ہے وَہم کو اُن کے وُجود پر شک ہے
گمان قسمیں اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جو کھیل کھیل میں اُلجھیں خیال سے اَپنے
تو زَخم دونوں کو آئیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
بنا لیں ایک بڑی سوچ ، چھوٹی سوچوں سے
پھر اُس پہ کپڑا چڑھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی کو گلستاں کہتے ہیں ، پھول کو باغات
چمن کو دُنیا بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ سیر ، صبح کی کرتے ہیں خواب میں چل کر
وَزَن کو سو کے گھٹائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وَزَن گھٹانے کا نسخہ بتائیں کانٹوں کو
پھر اُن کو چل کے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ تِل کے بوجھ سے بے ہوش ہو گئے اِک دِن
سہارا دے کے چلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کل اَپنے سائے سے وُہ اِلتماس کرتے تھے
یہاں پہ رَش نہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ تھک کے چُور سے ہو جاتے ہیں خدارا اُنہیں
خیال میں بھی نہ لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
پری نے ہاتھ سے اَنگڑائی روک دی اُن کی
کہ آپ ٹوٹ نہ جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
غزل وُہ پڑھتے ہی یہ کہہ کے قیس رُوٹھ گئے
کہ نازُکی تو بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
Be First to Comment