نہیں” مطلب نہیں اُس کی نہیں کا”
یہ دل سمجھا نہیں پاگل کہیں کا
ستارے ماند ہیں سب تیرے ہوتے
کہ تُو ہے چاند، وہ بھی چودھویں کا
میں روتا ہوں تو روتے ہیں در و بام
مکاں بھی دکھ سمجھتا ہے مکیں کا
یہ کیسے موڑ پر چھوڑا ہے تُو نے
مجھے چھوڑا نہیں تُو نے کہیں کا
کئے سجدے کچھ اتنے اُس کے در پر
نشاں سا پڑ گیا میری جبیں کا
لباسِ سُرخ میں ملبوس لڑکی
چھلکتا جام حُسنِ احمریں کا
مری گردن تک آ پہنچا تو جانا
مرا تو ہاتھ ہے سانپ آستیں کا
نہ جانے بات کیا تھی اُس گلی میں
کہ ہو کر رہ گیا فارس وہیں کا
رحمان فارس
Be First to Comment