مغرور ہی سہی، مجھے اچھا بہت لگا
وہ اجنبی تو تھا مگر اپنا بہت لگا
روٹھا ہوا تھا ہنس تو پڑا مجھ کو دیکھ کر
مجھ کو تو اس قدر بھی دلاسا بہت لگا
صحرا میں جی رہا تھا جو دریا دلی کے ساتھ
دیکھا جو غور سے تو وہ پیاسا بہت لگا
وہ جس کے دم قدم سے تھیں بستی کی رونقیں
بستی اجڑ گئی تو اکیلا بہت لگا
لپٹا ہوا کہر میں ہو جیسے خزاں کا چاند
میلے لباس میں بھی وہ پیارا بہت لگا
ریشم پہن کے بھی مری قیمت نہ بڑھ سکی
کھدر بھی اس کے جسم پہ مہنگا بہت لگا
محسن جب آئینے پہ میری سانس جم گئی
مجھ کو خود اپنا عکس بھی دھندلا بہت لگا
( محسن نقوی )
Be First to Comment