جو گیسوے جاناں کے نہیں دام سے واقف
دل اُن کا نہیں گردشِ ایّام سے واقف
بس ایک ہی محور پہ یہ دل گھوم رہا ہے
آنکھیں ہیں کہ بس ایک در و بام سے واقف
بے گانے پہ پھینکے گا بھلا سنگ کوئی کیوں
کچھ لوگ یقینا ہیں مِرے نام سے واقف
ہے کون جو واقف نہیں ناسازیِ دل سے
دل کس کا نہیں حسرتِ ناکام سے واقف
مرکوز توجّہ ہے فقط کام پہ راغبؔ
انعام سے واقف نہ میں اکرام سے واقف
Be First to Comment