ایک گماں کا حال ہے، اور فقط گماں میں ہے
کس نے عذابِ جاں سہا، کون عذابِ جاں میں ہے
لمحہ بہ لمحہ، دَم بہ دَم، آن بہ آن، رَم بہ رَم
میں بھی گزشتگاں میں ہوں، تو بھی گزشتگاں میں ہے
آدمؑ و ذاتِ کبریا کَرب میں ہیں جُدا جُدا
کیا کہوں ان کا ماجرا، جو بھی ہے امتحاں میں ہے
شاخ سے اُڑ گیا پرند، ہے دلِ شامِ دردمند
صحن میں ہے ملال سا، حُزن سا سماں میں ہے
خودبھی بے اماں ہوں میں، تجھ میں بھی بے اماں ہوں میں
کون سہے گا اس کا غم، وہ جو میری اماں میں ہے
کیسا حساب، کیا حساب، حالتِ حال ہے عذاب
زخم نفس نفس میں ہے، زہر زماں زماں میں ہے
اس کا فراق بھی زیاں، اس کا وصال بھی زیاں
اِک عجیب کشمکش حلقۂ بے دِلاں میں ہے
بُود و نبُود کا حساب، میں نہیں جانتا مگر
سارے وجود کی ”نہیں“میرے عدم کی”ہاں“میں ہے
ایک گماں کا حال ہے، اور فقط گماں میں ہے
Published inSufi Poetry
Be First to Comment