Skip to content

اُس شام وہ رُخصت کا سماں ، یاد رھے گا

اُس شام وہ رُخصت کا سماں ، یاد رھے گا
وہ شہر ، وہ کُوچہ ، وہ مکاں ، یاد رھے گا

وہ ٹِیس کہ اُبھری تھی اِدھر ، یاد رھے گی
وہ درد کہ اُٹھا تھا یہاں ، یاد رھے گا

ھم شوق کے شعلے کی لپک ، بُھول بھی جائیں
وہ شمعِ فسُردہ کا دُھواں ، یاد رھے گا۔

کچھ میر کے ابیات تھے ، کچھ فیض کے نُسخے
اِک درد کا تھا جن میں بیاں ، یاد رھے گا

جاں بخش سی ، اُس برگِ گُلِ تر کی تراوت
وہ لمسِ عزیز دو جہاں ، یاد رھے گا

ھم بُھول سکے ھیں ، نہ تجھے بُھول سکیں گے
تو، یاد رھے گا ، ھاں ھمیں یاد رہے گا

“اِبنِ اِنشاء”

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: