محشر میں پاس کیوں دمِ فریاد آگیا
رحم اس نے کب کیا تھا کہ اب یاد آگیا
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیّاد آگیا
ناکامیوں میں تم نے جو تشبیہ مجھ سے دی
شیریں کو درد تلخیِ فرہاد آگیا
ہم چارہ گر کو یوں ہی پہنائیں گے بیڑیاں
قابو میں اپنے گر وہ پری زاد آگیا
دل کو قلق ہے ترکِ محبت کے بعد بھی
اب آسماں کو شیوہء بے داد آگیا
وہ بدگماں ہوا جو کبھی شعر میں مرے
ذکرِ بتانِ خلخ و نوشاد آگیا
تھے بے گناہ جراءتِ پابوس تھی ضرور
کیا کرتے وہم خجلتِ جلاد آگیا
جب ہوچکا یقیں کہ نہیں طاقتِ وصال
دم میں ہمارے وہ ستم ایجاد آگیا
ذکرِ شراب و حور کلامِ خدا میں دیکھ
مومنؔ میں کیا کہوں مجھے کیا یاد آگیا
(حکیم مومن خان مومنؔ)
Leave a Comment