Skip to content

Tag: Jigar Moradabadi

Jigar Moradabadi

آدمی آدمی سے ملتا ہے

آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے

آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے

سلسلہ فتنۂ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے

مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے

کاروبار جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے

روح کو بھی مزا محبت کا
دل کی ہم سائیگی سے ملتا ہے

جگر مراد آبادی

Leave a Comment

سرِ محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہو گا

سرِ محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہو گا
درِ جنت نہ وا ہو گا ۔۔۔۔ درِ رحمت تو وا ہو گا
جہنم ہو کہ جنت ۔۔۔ جو بھی ہو گا فیصلہ ہو گا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہو گا
۔۔۔۔۔۔۔
جگر مراد آبادی

Leave a Comment
%d bloggers like this: