میں نے کب کہا کے وہ مرے حق میں فیصلہ کرے
اگر وہ مجھ سے خوش نہیں ہے تو مجھے جدا کرے
میں اس کے ساتھ جس طرح گزارتا ھوں زندگی
اسے تو چائیے کے میرا شکریہ ادا کرے
تہذیب حافی
Collection Of Your Favorite Poets
میں نے کب کہا کے وہ مرے حق میں فیصلہ کرے
اگر وہ مجھ سے خوش نہیں ہے تو مجھے جدا کرے
میں اس کے ساتھ جس طرح گزارتا ھوں زندگی
اسے تو چائیے کے میرا شکریہ ادا کرے
تہذیب حافی
اک تیرا ہجر دائمی ہے مجھے
ورنہ ہر چیز عارضی ہے مجھے
ایک سایہ مرے تعاقب میں
ایک آواز ڈھونڈتی ہے مجھے
میں سخن میں ہوں اس جگہ کہ جہاں
سانس لینا بھی شاعری ہے مجھے
میں اسے کب کا بھول بھال چکا
زندگی ہے کہ رو رہی ہے مجھے
تہذیب حافی
Leave a Commentعجب ضدیں ھوگئیں باھم، سراب لکھنا، چناب کہنا
اسی کو دل سے برا سمجھنا، اسی کو عزت مآب کہنا
وقت کے راستے سے ہم تم کو
ایک ہی ساتھ تو گُزرنا تھا
ہم تو جی بھی نہیں سکے اِک ساتھ
ہم کو تو ایک ساتھ مرنا تھا
جون ایلیاء
Leave a Commentدستِ شب پر دِکھائی کیا دیں گی
سلوٹیں روشنی میں اُبھریں گی
گھر کی دیواریں میرے جانے پر
اپنی تنہائیوں کو سوچیں گی
اُنگلیوں کو تراش دوُں، پھر بھی
عادتاً اُس کا نام لکھیں گی
رنگ و بوُ سے کہیں پناہ نہیں
خواہشیں بھی کہاں اَماں دیں گی
ایک خوشبوُ سے بچ بھی جاؤں اگر
دوُسری نکہتیں جکڑ لیں گی
خواب میں تِتلیاں پکڑنے کو
نیندیں بچوں کی طرح دوڑیں گی
کِھڑکیوں پر دبیز پردے ہوں
بارشیں پھر بھی دستکیں دیں گی
پروین شاکر
تارِیکیوں کو آگ لگے اور دِیا جلے
یہ رات بَین کرتی رہے اور دِیا جلے
اُس کی زباں میں اِتنا اثر ہے، کہ نصفِ شب
وہ روشنی کی بات کرے، اور دِیا جلے
تم چاہتے ہو تم سے بچھڑ کے بھی خوش رہُوں
یعنی ہَوا بھی چلتی رہے اور دِیا جلے
کیا مجھ سے بھی عزیز ہے تم کو دیے کی لو
پھر تو مِرا مزار بنے اور دِیا جلے
سورج تو میری آنکھ سے آگے کی چیز ہے
میں چاہتا ہُوں، شام ڈھلے اور دِیا جلے
تم لوٹنے میں دیر نہ کرنا، کہ یہ نہ ہو !
دِل تِیرَگی میں ڈوب چُکے اور دِیا جلے
تہذیب حافی
Leave a Commentشب بسر کرنی ہے، محفوظ ٹھکانہ ہے کوئی ؟
کوئی جنگل ہے یہاں پاس میں؟ صحرا ہے کوئی؟
ویسے سوچا تھا محبت نہیں کرنی میں نے
اس لئے کی کہ کبھی پوچھ ہی لیتا ہے کوئی
آپ کی آنکھیں تو سیلاب زدہ خطے ہیں
آپ کے دل کی طرف دوسرا رستہ ہے کوئی؟
جانتا ہوں کہ تجھے ساتھ تو رکھتے ہیں کئی
پوچھنا تھا کہ ترا دھیان بھی رکھتا ہے کوئی؟
دکھ مجھے اس کا نہیں ہے کہ دکھی ہے وہ شخص
دکھ تو یہ ہے کہ سبب میرے علاوہ ہے کوئی
دو منٹ بیٹھ، میں بس آئینے تک ہو آؤں
اُس میں اِس وقت مجھے دیکھنے آتا ہے کوئی
خوف بولا: “کوئی ہے؟ جس کو بُلانا ہے، بُلا!”
دیر تک سوچ کے میں زور سے چیخا: ” ہے کوئی؟؟”
عمیر نجمی
Leave a Commentایک طُرفہ تماشا ہے طبیعتِ عُشاق
!….کبھی فراق میں باتیں، کبھی وصال میں چُپ
منیر نیازی
Leave a Commentاب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں۔۔
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں۔۔
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی،
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں۔۔
غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کر لو،
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں۔۔
تُو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا،
دونوں انسان ہیں تو کیوں نہ حجابوں میں ملیں۔۔
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر،
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں۔۔
اب نہ وہ میں ہوں، نہ تُو ہے، نہ وہ ماضی ہے فراز،
جیسے دو سائے تمنّا کے سرابوں میں ملیں۔۔
احمد فراز
Leave a Commentکسے خبر ہے کہ عمر بس اس پہ غور کرنے میں کٹ رہی ہے
کہ یہ اداسی ہمارے جسموں سے کس خوشی میں لپٹ رہی ہے
میں اس کو ہر روز بس یہی ایک جھوٹ سننے کو فون کرتا
سنو یہاں کوئی مسئلہ ہے تمہاری آواز کٹ رہی ہے
تہذیب حافی
Leave a Comment