گُزر گئے ہیں جو خوشبوئے رائیگاں کی طرح
!..وہ چند روز ، مِری زنـدگـی کا حاصل تھے
ناصرکاظمی
Collection Of Your Favorite Poets
گُزر گئے ہیں جو خوشبوئے رائیگاں کی طرح
!..وہ چند روز ، مِری زنـدگـی کا حاصل تھے
ناصرکاظمی
تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں
حسن یزداں سے تجھے حسن بتاں تک دیکھوں
تو نے یوں دیکھا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا
میں تو دل میں ترے قدموں کے نشاں تک دیکھوں
صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں ترا حسن ترے حسن بیاں تک دیکھوں
میرے ویرانۂ جاں میں تری یادوں کے طفیل
پھول کھلتے نظر آتے ہیں جہاں تک دیکھوں
وقت نے ذہن میں دھندلا دیئے تیرے خد و خال
یوں تو میں ٹوٹتے تاروں کا دھواں تک دیکھوں
دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں
اک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود
حسن انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں
احمد ندیم قاسمی
Leave a Commentبیٹھے ہیں چین سے کہیں جانا تو ہے نہیں
ہم بے گھروں کا کوئی ٹھکانا تو ہے نہیں
تم بھی ہو بیتے وقت کے مانند ہو بہو
تم نے بھی یاد آنا ہے آنا تو ہے نہیں
عہدِ وفا سے کس لیئے خائف ہو میری جان
کر لو کہ تم نے عہد نبھانا تو ہے نہیں
وہ جو ہمیں عزیز ہے کیسا ہے کون ہے
کیوں پوچھتے ہو ہم نے بتانا تو ہے نہیں
دنیا ہم اہلِ عشق پہ کیوں پھینکتی ہے جال
ہم نے ترے فریب میں آنا تو ہے نہیں
وہ عشق تو کرے گا مگر دیکھ بھال کے
فارسؔ وہ تیرے جیسا دیوانہ تو ہے نہیں
رحمان فارس
Leave a Commentکبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبینِ نیاز میں
طرب آشنائے خروش ہو،تو نوا ہے محرم گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردہء ساز میں
تو بچا بچا کہ نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
دم طوف کرمک شمع نےیہ کہا کہ وہ اثر کہن
نہ تری حکایت سوز میں،نہ مری حدیث گداز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں ،نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی،نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا ،تجھے کیا ملےگا نماز میں
علامہ اقبال
Leave a Commentوحشتِ شب سے ڈر نہیں جاٶں گا
میں تمہارے بغیر مر نہیں جاٶں گا
نظرانداز کر کےخود کو دے رہےہو فریب
میں ترے دل سے اتر نہیں جاٶں گا
خدا سے مانگ رہا ہوں اتنا ہی کافی ہے
تجھے مانگنے مزاروں پر نہیں جاٶں گا
بچے بھوکے ہیں صاحب مزدور کہہ رہاتھا
اجرت دو خالی ہاتھ گھر نہیں جاٶں گا
میں اپنی راہ خود بنانے کا قاٸل ہوں
مشکلات دیکھ کےٹھہر نہیں جاٶں گا
میرا معیار بڑھے گا روزبروز
کمظرف کےگرانے سے گر نہیں جاؤں گا
شانوں پہ کس کے اشک بہایا کرینگی آپ
روٹھے گا کون ، کس کو منایا کرینگی آپ
وہ جارہا ہے صبحِ محبت کا کارواں
اب شام کو کہیں بھی نہ جایا کرینگی آپ
اب کون خود پرست ستائے گا آپ کو
کس بے وفا کے ناز اٹھایا کرینگی آپ
پہروں شبِ فراق میں تاروں کو دیکھ کر
شکلیں مٹا مٹا کے بنایا کرینگی آپ
گمنام اجالوں میں گزاریں گی رات دن
بے کار اپنے جی کو جلایا کرینگی آپ
ہمجولیوں کو اپنے باسوز تصورات
ماضی کے واقعات سنایا کرینگی آپ
اب وہ شرارتوں کے زمانے گزر گئے
چونکے گا کون،کس کو ڈرایا کرینگی آپ
فرقت میں دورِ گوشہ نشینی بھی آئے گا
ملنے سہیلیوں سے نہ جایا کرینگی آپ
پھر اسکے بعد وہ منزل بھی آئے گی
دل سے مرا خیال مٹایا کرینگی آپ
حالاتِ نو بہ نو کے مسلسل ہجوم میں
کوشش سے اپنے جی کو جلایا کرینگی آپ
آئے گا پھر وہ دور بھی تغیر کے دور میں
دل میں کوئی خلش ہی نہ پایا کرینگی آپ
جون ایلیاء
Leave a Commentمکاں سے لا مکاں کے داٸرے طے کر رہا ہوں
اُسے پہچاننے کے مرحلے طے کر رہا ہوں
مصلّے پر جو بیٹھا اُڑ رہا ہوں سُوٸے کعبہ
تو سر بستہ سفر کے سلسلے طے کر رہا ہوں
ابھی لا علم ہوں میں عشق کی سب منزلوں سے
ابھی تو میں خرَد کے راستے طے کر رہا ہوں
تساہُل کے بچھونے پر میں سویا ہوں بظاہر
مگر اِس نیند میں بھی رتجگے طے کر رہا ہوں
مجھے پھر چاند کی کرنوں نے شب بھر چاٹنا ہے
ابھی سُورج کے میں کچھ مسٸلے طے کر رہا ہوں
وحیدُالعصر سے کہہ دو کہ وہ چہرہ چھپا لے
میں اُس کے واسطے اب آٸینے طے کر رہا ہوں
دما دم آنسووں کا رقص ہے آنکھوں میں میری
دما دم میں غناٸی غم کدے طے کر رہا ہوں
عیاں ہے وہ مرے دل کے نہاں خانوں میں واصف
میں راہ ِ شوق میں کیوں آبلے طے کر رہا ہوں
!.محترمہ مسکراتی ہیں میری باتوں پر
!…یعنی وہ تھوڑی سی میری ہو چکی ہیں
بہکے بہکے ہوئے انداز بیان ہوتے ہیں
آپ ہوتے ہیں تو ہوش کہاں ہوتے ہیں