ہر آشنا میں کہاں خُوئے محرمانہ وہ
کہ بے وفا تھا مگر، دوست تھا پرانا وہ
کہاں سے لائیں اب آنکھیں اُسے، کہ رکھتا تھا
عداوتوں میں بھی انداز مُخلصانہ وہ
احمد فراز
Leave a Commentہر آشنا میں کہاں خُوئے محرمانہ وہ
کہ بے وفا تھا مگر، دوست تھا پرانا وہ
کہاں سے لائیں اب آنکھیں اُسے، کہ رکھتا تھا
عداوتوں میں بھی انداز مُخلصانہ وہ
احمد فراز
Leave a Commentﻣِﻨﺘﯿﮟ ﮬﯿﮟ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﯽ ﺗﯿﺮﮮ
ﺧُﻮﺏ ﮔﺰﺭﯼ ﺗﯿﺮﮮ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍِﮎ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮ ﮐﺮﺩﯼ
ﺗﯿﺮﮮ ﻧﺎﺩﯾﺪﮦ ﺧﺪﻭﺧﺎﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﺟﻮﻥ ﺍﯾﻠﯿﺎ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺯﺧﻢ ﮔﮩﺮﺍ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺗﻨﺎ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ
ﺗﻢ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻨﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺗﻨﺎ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ
ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریبان میں ہے
کیا خبر تھی کہ بہار اس کے بھی ارمان میں ہے
ایک ضرب اور بھی اے زندگیِ تیشہ بدست
سانس لینے کی سکت اب بھی مری جان میں ہے
میں تجھے کھو کے بھی زندہ ہوں یہ دیکھا تو نے
کس قدر حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں ہے
فاصلے قرب کے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
میں ترے شہر سے دُور اور تُو مرے دھیان میں ہے
سرِ دیوار فروزاں ہے ابھی ایک چراغ
اے نسیمِ سحری! کچھ ترے امکان میں ہے
دل دھڑکنے کی صدا آتی ہے گاہے گاہے
جیسے اب بھی تری آواز مرے کان میں ہے
خلقتِ شہر کے ہر ظلم کے با وصف فراز
ہائے وہ ہاتھ کہ اپنے ہی گریبان میں ہے
احمد فراز
Leave a Commentمَیں کیوں نہ ترکِ تعلق کی ابتدا کرتا
وہ دُور دیس کا باسی تھا کیا وفا کرتا؟
وہ میرے ضبط کا اندازہ کرنے آیا تھا
مَیں ہنس کے زخم نہ کھاتا تو اور کیا کرتا؟
ہزار آئینہ خانوں میں بھی مَیں پا نہ سکا
وہ آئینہ جو مجھے خود سے آشنا کرتا
غمِ جہاں کی محبت لُبھا رہی تھی مجھے
مَیں کس طرح تیری چاہت پہ آسرا کرتا؟
اگر زبان نہ کٹتی تو شہر میں “محسن”
مَیں پتھروں کو بھی اِک روز ہمنوا کرتا
محسن نقوی
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے
سلسلہ فتنۂ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
کاروبار جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے
روح کو بھی مزا محبت کا
دل کی ہم سائیگی سے ملتا ہے
جگر مراد آبادی
Leave a Commentنِگاہ ناز کی معصُومِیت ،ارے توبہ
!جو ہم فریب نہ کھاتے تو اور کیا کرتے
کون اس دیس میں دے گا ہمیں انصاف کی بھیک
جس میں خونخوار درندوں کی شہنشاہی ہے
جس میں غلے کے نگہباں ہیں وہ گیدڑ جن سے
قحط و افلاس کے بھوتوں نے اماں چاہی ہے
قتیل شفائی
Leave a Commentیہ بہت دکھ کی بات ہے لیکن
تم نے جانا ہے تو چلے جاؤ
یار دنیا بھی کیا تماشا ہے
آو ، آ کے رہو ، چلے جاؤ
میرے گاؤں میں مجھے دیکھنے آیا ہوگا
سیر کرنے تو کاغان بھی جا سکتا تھا
بات سن کر جو گیا ہے تو یہی پیار ہے نا
ورنہ وہ بات کے دوران بھی جا سکتا تھا