Skip to content

The Poet Place Posts

محشر میں پاس کیوں دمِ فریاد آگیا

محشر میں پاس کیوں دمِ فریاد آگیا
رحم اس نے کب کیا تھا کہ اب یاد آگیا

الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں‌ صیّاد آگیا

ناکامیوں میں تم نے جو تشبیہ مجھ سے دی
شیریں کو درد تلخیِ فرہاد آگیا

ہم چارہ گر کو یوں ہی پہنائیں گے بیڑیاں
قابو میں اپنے گر وہ پری زاد آگیا

دل کو قلق ہے ترکِ محبت کے بعد بھی
اب آسماں کو شیوہء بے داد آگیا

وہ بدگماں ہوا جو کبھی شعر میں مرے
ذکرِ بتانِ خلخ و نوشاد آگیا

تھے بے گناہ جراءتِ پابوس تھی ضرور
کیا کرتے وہم خجلتِ جلاد آگیا

جب ہوچکا یقیں کہ نہیں طاقتِ وصال
دم میں ہمارے وہ ستم ایجاد آگیا

ذکرِ شراب و حور کلامِ خدا میں دیکھ
مومنؔ میں کیا کہوں مجھے کیا یاد آگیا

(حکیم مومن خان مومنؔ)

Leave a Comment

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اسے چپکے چپکے پڑھا کرو

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو

مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سنا کرو، جو سنا نہیں وہ کہا کرو

ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں، کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمھیں جس نے دل سے بھلا دیا، اسے بھولنے کی دعا کرو

کبھی حسنِ پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں
جو میں بن سنور کہیں چلوں، مرے ساتھ تم بھی چلا کرو

نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمیِ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو

یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمھارے گھر کی بہار ہے، اسے آنسوؤں سے ہرا کرو

بشیر بدر

Leave a Comment

آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی

آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی
یادوں سے کوئی رات جو خالی نہیں جاتی

اب عمر نہ موسم نہ وہ رستے کہ وہ پلٹے
اس دل کی مگر خام خیالی نہیں جاتی

مانگے تو اگر جان بھی ہنس کے تجھے دے دیں
تیری تو کوئی بات بھی ٹالی نہیں جاتی

آئے کوئی آ کر یہ ترے درد سنبھالے
ہم سے تو یہ جاگیر سنبھالی نہیں جاتی

معلوم ہمیں بھی ہیں بہت سے ترے قصے
پر بات تری ہم سے اچھالی نہیں جاتی

ہم راہ ترے پھول کھلاتی تھی جو دل میں
اب شام وہی درد سے خالی نہیں جاتی

ہم جان سے جائیں گے تبھی بات بنے گی
تم سے تو کوئی راہ نکالی نہیں جاتی

وصی شاہ

Leave a Comment

تجھے میں ڈھونڈ رہا ہوں مگر نہیں ہے تُو

تجھے میں ڈھونڈ رہا ہوں مگر نہیں ہے تُو
مجھے یقین ہے لیکن یہیں کہیں ہے تُو

مجھے تو عشق سکھائے گا؟ چھوڑ دے پیارے
میں اوّلیں ہوں محبّت میں آخریں ہے تُو

ذہین ہم بھی بہت ہیں مگر خدا کی قسم
فقط ذہین نہیں ہے بہت حَسیں ہے تُو

میں کیاکہوں کہ تجھےچاہتاہوں کیوں جاناں
اگرچہ لوگ یہ کہتے ہیں مہ جَبیں ہے تُو

بس ایک تم سےمحبّت ہے،تھی،رہے گی سدا
کہ دل مُحلے میں جاناں فَقط مکیں ہے تُو

کبھی جو پوچھا گیا ہے تمہارے بارے میں
یہی کہا کہ مری جان بہتریں ہے تُو

جنون عقل سے آگے نکل گیا اشرف
وَگرنہ لوگ یہ کہتے تھے پیش بیں ہے تُو

Leave a Comment

کبھی جب مدتوں کے بعد اُس کا سامنا ہو گا

کبھی جب مدتوں کے بعد اُس کا سامنا ہو گا
سوائے پاس آدابِ تکلّف اور کیا ہو گا؟
یہاں وہ کون ہے جو انتخاب غم پہ قادر ہے
جو مل جائے وہی غم دوستوں کا مدعا ہو گا
نوید سر خوشی جب آئے گی اس وقت تک شاید
ہمیں زہرِ غم ہستی گوارا ہو چکا ہو گا
صلیبِ وقت پر میں نے پُکارا تھا محبت کو
میری آواز جس نے بھی سُنی ہو گی، ہنسا ہو گا
ابھی اِک شورِ ہائے و ہو سنا ہے ساربانوں نے
وہ پاگل قافلے کے ضِد میں پیچھے رہ گیا ہو گا
ہمارے شوق کے آسودہ و خُوشحال ہونے تک
تمھارے عارض و گیسُو کا سودا ہو چکا ہو گا
نوائیں، نکہتیں، آسودہ چہرے، دلنشیں رشتے
مگر اک شخص اس ماحول میں کیا سوچتا ہو گا
ہنسی آتی ہے مجھ کو مصلحت کے ان تقاضوں پر
کہ اب ایک اجنبی بن کر اُسے پہچاننا ہو گا
دلیلوں سے دوا کا کام لینا سخت مُشکل ہے
مگر اس غم کی خاطر یہ ہُنر بھی سیکھنا ہو گا
وہ منکر ہے تو پھر شاید ہر اک مکتوب شوق اس نے
سر انگشتِ حنائی سے خلاؤں میں لکھا ہو گا
ہے نصفِ شب، وہ دیوانہ ابھی تک گھر نہیں آیا
کسی سے چاندنی راتوں کا قصہ چھڑ گیا ہو گا
صبا! شکوہ ہے مجھ کو ان دریچوں سے ، دریچوں سے؟
دریچوں میں تو دیمک کے سوا اب اور کیا ہوگا
جون ایلیا

Leave a Comment

غم ہائے روز گار میں الجھا ہوا ہوں میں

غم ہائے روز گار میں الجھا ہوا ہوں میں
اس پر ستم یہ ہے اسے یاد آ رہا ہوں میں
ہاں اُس کے نام میں نے کوئی خط نہیں لکھا
کیا اُس کو یہ لکھوں کہ لہو تھوکتا ہوں میں
کرب غم شعور کا درماں نہیں شراب
یہ زہر ہےاثر ہے اسے پی چکا ہوں میں
اے زندگی بتا کہ سرِ جادہ ءِ شتاب
یہ کون کھو گیا ہے کسے ڈھونڈتا ہوں میں
اے وحشتو! مجھے اسی وادی میں لے چلو
یہ کون لوگ ہیں، یہ کہاں آ گیا ہوں میں
شعر و شعور اور یہ شہرِ شمار شور
بس ایک قرض ہے جو ادا کر رہا ہوں میں
یہ تلخیاں یہ زخم، یہ ناکامیاں یہ غم
یہ کیا ستم کہ اب بھی ترا مدعا ہوں میں
میں نے غم حیات میں تجھ کو بھلا دیا
حسن وفا شعار، بہت بے وفا ہوں میں
عشق ایک سچ تھا تجھ سے جو بولا نہیں کبھی
عشق اب وہ جھوٹ ہے جو بہت بولتا ہوں میں
معصوم کس قدر تھا میں آغازِ عشق میں
اکثر تو اس کے سامنے شرما گیا ہوں میں
دنیا میرے ہجوم کی آشوب گاہ ہے
اور اپنے اس ہجوم میں تنہا کھڑا ہوں میں
وہ اہلِ شہر کون تھے وہ شہر تھا کہاں
ان اہلِ شہر میں سے ہوں اس شہر کا ہوں میں

جون ایلیا

Leave a Comment

زہر آلود ہے ہر سانس، نہیں لے سکتے

زہر آلود ہے ہر سانس، نہیں لے سکتے
مر چکے ہیں یہ شجر، سانس نہیں لے سکتے

نیند کی گولیاں لے لیتے ہیں ورنہ ہم لوگ
رات کے پچھلے پہر سانس نہیں لے سکتے

اِتنی وسعت میں گھٹن، ِاس کو خلا کہتے ہیں
کہ کھلا گھر ہے مگر سانس نہیں لے سکتے

کیسے لے لیں ترا احسان کسی ڈر کے بغیر؟
ہم تو بے خوف و خطرسانس نہیں لے سکتے

تنگ بازار میں فہرست لیے سوچتے ہیں
اور کیا لیں گے اگر سانس نہیں لے سکتے؟

دل وہ گھر ہے کہ جو خالی ہے، ہوادار نہیں
آپ رہ سکتے ہیں پر سانس نہیں لے سکتے

بس اسی ڈر سے کہ دھندلائے نہ وہ آئنہ رُخ
جب تک اُس پر ہو نظر، سانس نہیں لے سکتے

ٹھوڑی، خنجر کی طرح چبھتی ہے سینے میں، عمیر
اس قدر خم ہے کمر، سانس نہیں لے سکتے

عمیر نجمی

Leave a Comment

کچھ اس طرح سے کسی نے کہا خدا حافظ

کچھ اس طرح سے کسی نے کہا خدا حافظ
کہ جیسے بول رہا ھو خدا، خدا حافظ

میں ایک بار پریشان ھوا تھا اپنے لیے
جب اس نے روتے ہوئے بولا تھا خدا حافظ

تُو جس کہ پاس بھی جا، جا تجھے اجازت ھے
تجھے خدا کے حوالے کیا خدا حافظ

مجھے تو کیسے خدا کہ سپرد کر رھا ھے
میں تیرے زمہ ھوں تُو کہہ رھا خدا حافظ؟؟

میں دھاڑیں مار کہ رویا کسی کی یاد آئی
جہاں کہیں بھی سنا یا پڑھا خدا حافظ

پھر ایک روز مقدر سے ھار مانی گئی
جبیں چوم کر بولا گیا خدا حافظ

میں اُس سے مل کر اسے دُکھ سنانے والا تھا
سلام کرتے ھی جس نے کہا خدا حافظ

افکار علوی

Leave a Comment

محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا

محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا
بہت آساں نہیں ہوتا جدائی مانگتے رہنا

ذرا سا عشق کر لینا،ذرا سی آنکھ بھر لینا
عوض اِس کے مگر ساری خدائی مانگتے رہنا

کبھی محروم ہونٹوں پر دعا کا حرف رکھ دینا
کبھی وحشت میں اس کی نا رسائی مانگتے رہنا

وفاؤں کے تسلسل سے محبت روٹھ جاتی ہے
کہانی میں ذرا سی بے وفائی مانگتے رہنا

عجب ہے وحشت ِ جاں بھی کہ عادت ہو گئی دل کی
سکوتِ شام ِ غم سے ہم نوائی مانگتے رہنا

کبھی بچے کا ننھے ہاتھ پر تتلی کے پر رکھنا
کبھی پھر اُس کے رنگوں سے رہائی مانگتے رہنا

نوشی گیلانی

Leave a Comment
%d bloggers like this: