Skip to content

Category: Uncategorized

وحشتِ شب سے ڈر نہیں جاٶں گا

وحشتِ شب سے ڈر نہیں جاٶں گا
میں تمہارے بغیر مر نہیں جاٶں گا

نظرانداز کر کےخود کو دے رہےہو فریب
میں ترے دل سے اتر نہیں جاٶں گا

خدا سے مانگ رہا ہوں اتنا ہی کافی ہے
تجھے مانگنے مزاروں پر نہیں جاٶں گا

بچے بھوکے ہیں صاحب مزدور کہہ رہاتھا
اجرت دو خالی ہاتھ گھر نہیں جاٶں گا

میں اپنی راہ خود بنانے کا قاٸل ہوں
مشکلات دیکھ کےٹھہر نہیں جاٶں گا

میرا معیار بڑھے گا روزبروز
کمظرف کےگرانے سے گر نہیں جاؤں گا

Leave a Comment

بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی

بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی
کہ میں تو میں ہی رہا تجھ سے دور جا کر بھی

میں سخت جان تھا اس کرب سے بھی بچ نکلا
میں جی رہا ہوں تجھے ہاتھ سے گنوا کر بھی

خدا کرے تجھے دوری ہی راس آ جائے
تو کیا کرے گا بھلا اب یہاں پر آ کر بھی

ابھی تو میرے بکھرنے کا کھیل باقی ہے
میں خوش نہیں ہوں ابھی اپنا گھر لٹا کر بھی

میں اس کو سطح سے محسوس کر کے بھی خوش ہوں
وہ مطمئن ہی نہیں میری تہہ کو پا کر بھی

ابھی تک اس نے کوئی بھی تو فیصلہ نہ کیا
وہ چپ ہے مجھ کو ہر اک طرح آزما کر بھی

اسی ہجوم میں لڑ بھڑ کے زندگی کر لو
رہا نہ جائے گا دنیا سے دور جا کر بھی

وہ لوگ اور ہی تھے جن کا عجز پھل لایا
ہمیں تو کچھ نہ ملا اپنے کو مٹا کر بھی

کھلا یہ بھید کہ تنہائیاں ہی قسمت ہیں
اک عمر دیکھ لیا محفلیں سجا کر بھی

غزل کہے پہ بھی سوچوں کا بوجھ کم نہ ہوا
سکوں نہ مل سکا احوال دل سنا کر بھی

رکا نہ ظلم مرے راکھ بننے پر بھی
ہوا کی خو تو وہی ہے مجھے جلا کر بھی

Leave a Comment

نئی طرح سے نبھانے کی دِل نے ٹھانی ہے

نئی طرح سے نبھانے کی دِل نے ٹھانی ہے
وگرنہ اُس سے مَحبّت بہت پُرانی ہے

خدا وہ دن نہ دکھائے کہ میں کسی سے سُنوں
کہ تُو نے بھی غمِ دنیا سے ہار مانی ہے

زمیں پہ رہ کے ستارے شکار کرتے ہیں
مزاج اہلِ مَحبّت کا آسمانی ہے!!

ہمیں عزیز ہو کیونکر نہ شامِ غم کہ یہی
بچھڑنے والے ‘ تیری آخری نشانی ہے

اُتر پڑے ہو تو دریا سے پوچھنا کیسا؟
کہ ساحلوں سے اُدھر کتنا تیز پانی ہے

بہت دنوں میں تیری یاد اوڑھ کر اُتری
یہ شام کتنی سنہری ہے کیا سُہانی ہے!

میں کتنی دیر اُسے سوچتا رہوں مُحسنؔ
کہ جیسے اُس کا بدن بھی کوئی کہانی ہے

Leave a Comment

ﺍِﺗﻨﺎ ﺑﮑﮭﺮﺍ ﮨﻮﮞ

ﺍِﺗﻨﺎ ﺑﮑﮭﺮﺍ ﮨﻮﮞ ﺍِﮐﭩﮭّﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺍﺏ ﺗُﺠﮭﮯ ﭼُﮭﻮ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭼﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﮮ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﻣِﺮﮮ ﭘﺎﺅﮞ ﮐﯽ
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﺷﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﻣﺮ ﮔﺌﯽ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺷﻌﺮ ﻣﺰﺍﺟﯽ ﻣﯿﺮﯼ
ﺍﺏ ﺗُﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﻣﺼﺮﻉ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺩُﮐﮫ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣِﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﭘﮧ ﻗﺎﺑﺾ ﮨﻮﺍ ﺷﺨﺺ
ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ

Leave a Comment

دلِ شکستہ

دلِ شکستہ سے یُوں جا رہی ہے اُن کی یاد
مکیں کو جیسے ہو ٹُوٹے ہُوئے مکاں سے گریز

خُدا کی شان! تجھے یُوں مری فُغاں سے گریز
کہ جس طرح ،کسی کافر کو ہو اذاں سے گریز

جہاں وہ چاہیں قمؔر شوق سے ہمیں رکھیں
زمیں سے ہم کو گریز اور نہ آسماں سے گریز

Leave a Comment

دم بہ دم گردشِ دوراں کا گُھمایا ہُوا شخص

دم بہ دم گردشِ دوراں کا گُھمایا ہُوا شخص
ایک دِن حشر اُٹھاتا ہے گرایا ہوا شخص

میں تو خود پر بھی کفایت سے اُسے خرچ کروں
وہ ہے مہنگائی میں مُشکل سے کمایا ہوا شخص

یاد آتا ہے تو آتا ہی چلا جاتا ہے
کارِ بیکارِ زمانہ میں بُھلایا ہوا شخص

دشتِ بے آب میں آواز نہ الفاظ کہِیں
ہر طرف دھوپ تھی پھر پیڑ کا سایہ ہوا شخص

جب ضرورت تھی،اُسی وقت مُجھے کیوں نہ ملا
بس اِسی ضد میں گنوا بیٹھوں گا پایا ہُوا شخص

کیا عجب خوانِ مُقدّر ہی اُٹھا کر پھینکے
ڈانٹ کرخوانِ مُقدّر سے اُٹھایا ہُوا شخص

اپنی شورِیدہ مِزاجی کا کروں کیا “نیّر”
روٹھ کر جا بھی چُکا مان کے آیا ہُوا شخص

Leave a Comment

آپ کیوں صاحبِ اسرار سمجھتے ہیں

آپ کیوں صاحبِ اسرار سمجھتے ہیں مجھے
گھر کے افراد تو بے کار سمجھتے ہیں مجھے

آپ کو میں نے کبھی غور سے دیکھا بھی نہیں
آپ بھی اپنا طلب گار سمجھتے ہیں مُجھے

میرے کردار کی جو قسمیں اٹھاتے تھے کبھی
اب وہی لوگ گناہگار سمجھتے ہیں مجھے

آپ تو وقت گزاری کو مجھے ملتے ہیں
آپ تو شام کا اخبار سمجھتے ہیں مجھے

جب بھی مشکل میں ہوں احباب تو آ جاتے ہیں
کسی درویش کا دربار سمجھتے ہیں مجھے

اہل_ دانش کی نظر میں ہوں میں کم فہم مگر
سارے کم فہم سمجھدار سمجھتے ہیں مجھے

جن کی تلقین پہ میں غم میں ہنسا کرتا ہوں
جانے کیوں اب وہ اداکار سمجھتے ہیں مجھے

میں کہانی کا ہوں اک ثانوی کردار سفیر
اور وہ مرکزی کردار سمجھتے ہیں مجھے

Leave a Comment

حسنِ دلکش کے مضافات میں

حسنِ دلکش کے مضافات میں رہنے والے،
ہم ہیں بے وجہ فسادات میں رہنے والے،

دیکھ ٹپ ٹپ کے ترنم کا مزہ لیتے ہوئے،
کتنے خوش باش ہیں برسات میں رہنے والے،

ہم اسے چاہنے والے تھے، مگر، یاد آیا،
اپنے آبا تو تھے اوقات میں رہنے والے،

اتنے مانوس ہیں تاریکی ء شب سے یارو،
دن نکلنے ہی نہ دیں رات میں رہنے والے،

آنکھ جو دیکھتی ہے سچ ہو، ضروری تو نہیں،
ساتھ ہوتے ہیں کہاں ساتھ میں رہنے والے،

دین سے دور ہوئے جاتے ہیں لمحہ لمحہ،
ہم زمانے کی رسومات میں رہنے والے،

خامشی اتنی پسند آئی اس آوارہ کی،
بات سے روٹھ گئے بات میں رہنے والے،

پیار سے توبہ کی ، آزاد ہوئے، صدقہ دیا ،
پھر ہنسے، ہجر کے خدشات میں رہنے والے،

Leave a Comment
%d bloggers like this: