Skip to content

Category: Uncategorized

زندگی مجھ سے صلح چاہتی ہے

زندگی مجھ سے
صلح چاہتی ہے
زخموں کی اپنے
دوا چاہتی ہے

گرہوں کی ماری
یہ دودهوں جلی
کمبخت مجھ سے
نکاح چاہتی ہے

چنتا سے خائف
یہ الہڑ ندیدہ
حصے کی اپنے
ردا چاہتی ہے

پیری کی دشمن
یہ نو عمر لونڈی
جوانی کیا جی بهر
نشہ چاہتی ہے

الفت کی موجب
یہ دل کش حسینہ
ہر سن سے نورس
ادا چاہتی ہے

تنفس کی دیوی
یہ سینوں کی رضیہ
ان آتش کدوں سے
ضیا چاہتی ہے

بدن سے سفیر_بدن
بن کے اٹهے
دہر میں یہ ایسا
دیا چاہتی ہے

یہ حوا پہ اترے
تو سمجهو قیامت
سبهو چشم اس سے
پناہ چاہتی ہے

تیرے روبرو اس
کے نوٹنکی ناٹک
شفا بخش ہو تم
شفا چاہتی ہے

یہ سوچوں کے کنبہ
میں پہلوٹهی بهاوج
دلوں کے ٹهکانے
تباہ چاہتی ہے

یہ زرتار_آنچل یہ
لٹهے کی خلوت
پهولوں کی خود پہ
قبا چاہتی ہے

رزب یہ حرافہ یہ
تیلی کی رسیا
بشر سے لحد تک
وفا چاہتی ہے

Leave a Comment

ﺍﮮ ﯾﺎﺩِ ﯾﺎﺭ

ﺍﮮ ﯾﺎﺩِ ﯾﺎﺭ ، تجھ ﺳﮯ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﯿﺎ ﺷﮑﺎیتیں ؟؟
ﺍﮮ ﺩﺭﺩِ ھﺠﺮ ، ھﻢ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﮯ ھﻮ ﮔﺌﮯ
سمجھا رھے تھے مجھ کو ، سبھی ناصحانِ شہر
پھر رفتہ رفتہ ، خود اُسی کافر کے ھو گئے​

Leave a Comment

نالہ ہے بُلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی

نالہ ہے بُلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
پُختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی
شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زُنّاریِ بُت خانۂ ایّام ابھی
عُذرِ پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی
ہے ترے دل میں وہی کاوشِ انجام ابھی
سعیِ پیہم ہے ترازُوئے کم و کیفِ حیات
تیری میزاں ہے شمارِ سحَر و شام ابھی
ابرِ نیساں! یہ تنک بخشیِ شبنم کب تک
مرے کُہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی
بادہ گردانِ عجَم وہ، عَربی میری شراب
مرے ساغر سے جھجکتے ہیں مے آشام ابھی
خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم
نَو گرفتار پھڑکتا ہے تہِ دام ابھی

Leave a Comment

نشے کی آگ میں دیکھا گلاب یعنی تو

نشے کی آگ میں دیکھا گلاب یعنی تو
بدن کے جام میں دیسی شراب یعنی تو

ہمارے لمس نے سب تار کس دئے اس کے
وہ جھنجھنانے کو بیکل رباب یعنی تو

ہر ایک چہرہ نظر سے چکھا ہوا دیکھا
ہر اک نظر سے اچھوتا شباب یعنی تو

سفید قلمیں ہوئیں تو سیہ زلف ملی
اب ایسی عمر میں یہ انقلاب یعنی تو

مے خود ہی اپنی نگاہوں کہ داد دیتا ہوں
حذر چہروں میں اک انتخاب یعنی تو

ملے ملے نہ ملے نیکیوں کا پھل مجھ کو
خدا نے دے دیا مجھ کو ثواب یعنی تو

گداز جسم کمل ہونٹ مرمری باہیں
مری طبیعت پہ لکھی کتاب یعنی تو

میں تیرے عشق سے پہلے گناہ کرتا تھا
مجھے دیا گیا دل کش عذاب یعنی تو

Leave a Comment

آؤ آج تمھیں اک کہانی سناتا ہوں میں

آؤ آج تمھیں اک کہانی سناتا ہوں میں
قصہ دلِ برباد کا اپنی زبانی سناتا ہوں میں

سرِ بزم جو کبھی کوئ پکارے نام اُسکا
بےساختہ سا کلیجہ اپنا تھام لیتا ہوں میں

وہ جو دن کو کہہ دیتی ہے رات کبھی
اعتبار دیکھو، رات مان کے سو جاتا ہوں میں

اُسکے لمس کی شدتوں کا مارا۔۔۔ہر روز
اُسکی تصویر سینے سے لگا کے رو جاتا ہوں میں

جانتا ہوں وہ دلنشیں آنکھیں بےوفا ہیں مگر
پھر بھی اُن میں ڈوبتا چلا جاتا ہوں میں

وہ کہتی ہے میرے عشق میں تم مارے جاؤ گے
جنوں دیکھو۔۔۔کہ مرنے پہ تُلا جاتا ہوں میں

وہ جن لمحوں میں میرے ساتھ ہوتی ہے
بس اُنہی لمحوں میں جیا جاتا ہوں میں

کہنے کو بہت ہیں مہ جبینیں جہاں میں
اک اُسی سادہ سے خدوخال پہ لُٹا جاتا ہوں میں

وہ اک شام کہ جب اُس نے کہا تھا مجھے اپنا
بس وہی اک بات بار بار سُننا چاہتا ہوں میں

میرا سَر اپنی گود میں رکھ کے میرے بالوں سے کھیلنا
کبھی یوں بھی پیار سے سہلایا جاتا ہوں میں

تیرے ہونے سے میری جان، جان میں جان تھی
اب تو یوں سمجھو بےجان سا ہوا جاتا ہوں میں

اکثر راتوں میں تنہائ سے عاجز آ کر
بہت دیر تک تجھے ہی سوچتا چلا جاتا ہوں میں

تم تھی تو گویا پوری کائنات تھی مٹھی میں میری
اب تو اے جاں، بہت اکیلا سا ہوا جاتا ہوں میں

عجب ہے یہ رمزِ عشق بھی جاناں
تو جتنا دور جاۓ اُتنا قریب ہوا جاتا ہوں میں

جو ہستے ہوۓ تھکتا نا تھا اب بولتا بھی نہیں
دیکھ تو زرا۔۔۔کیا سے کیا ہوا جاتا ہوں میں

تیری عادتیں اپنا لی ہیں، تیری باتیں دوہراتا ہوں
کہ اب تو ہوباہو “تم” ہوا جاتا ہوں میں

اکثر عالمِ تنہائ میں تُجھے تصَور میں لا کر
تجھ سے پہروں باتیں کیا جاتا ہوں میں

میری دیوانگی کی حد سے تو انجان ہے اب تک
کہ حد میں رہ کر۔۔۔بےحد تجھے چاہتا ہوں میں

تو اکثر پوچھتی تھی نا بچھڑے تو کیا ہو گا میرا
آ زرا دیکھ تو صحیح کتنا برباد ہوا جاتا ہوں میں

میرا سفر تیرے لیۓ، میری منزل بھی فقط تو تھی
تجھ سے شروع ہوتا ہوں تجھ پہ ہی ختم ہوا جاتا ہوں میں

یہ دل تیرے نام پہ دھڑکتا، یہ سانسیں تجھ سے چلتی ہیں
تم بن تو جیسے کوئ زندہ لاش ہوا جاتا ہوں میں

اک ادھوری سی بات ہے جسے مکمل کرنے کے واسطے
جانے کتنے برسوں سے تیرا منتظر ہوا جاتا ہوں میں

دیکھ کیسے نکھر نکھر کے بگڑا ہوں تیرے عشق میں
کسی سے جو ملوں تو تیرے بارے ہی پوچھتا جاتا ہوں میں

سُنا ہے تیری محبت نے بخشا ہے میرے الفاظ کو درد گہرا
لوگ کہتے ہیں کہ۔۔۔شاعر ہوا جاتا ہوں میں

کبھی موقع ملا تو سُناؤں گا تجھے اپنی وہ اک غزل بھی
جس میں لفظ با لفظ، تن با تن، سانس در سانس تیرے نام کیئے جاتا ہوں میں

Leave a Comment

خوشبوؤں کے کنول جلاؤں گا

خوشبوؤں کے کنول جلاؤں گا
سیج تو چاند پر سجاؤں گا

تُو شریکِ حیات بن جائے
پیار کی مملکت بناؤں گا

تھام لے ہاتھ میرا وعدہ ہے
تیری پازیب تک دَباؤں گا

تُو کرم ماں کے بھول جائے گی
میں ترے اِتنے ناز اُٹھاؤں گا

تیرے گُل رُخ کی تازگی کے لیے
شبنمی گیت گنگناؤں گا

خانقاہوں کے بعد تیرے لیے
مندروں میں دِئیے جلاؤں گا

مانگ تیری دَرخشاں رَکھنے کو
کہکشائیں بھی توڑ لاؤں گا

دِل کی رانی ہے ، نوکرانی نہیں
اَپنے گھر والوں کو بتاؤں گا

تیرے گھر والے روز آئیں گے
اُن سے یوں رابطہ بڑھاؤں گا

گھر سے میں سیدھا جاؤں گا دَفتر
اور دَفتر سے گھر ہی آؤں گا

یاروں کے طعنے بے اَثر ہوں گے
میں ترے ساتھ کھانا کھاؤں گا

چاندنی شب میں من پسند غذا
لقمہ لقمہ تجھے کھِلاؤں گا

کاسۂ آب پہلے دُوں گا تجھے
پیاس میں بعد میں بجھاؤں گا

بھول جائے گی گھر کی اُکتاہٹ
شب تجھے اِس قَدَر گھماؤں گا

ویسے بھر آئے دِل تو رو لینا
سوچ بھی نہ کہ میں ستاؤں گا

گر خطا تجھ سے کوئی ہو بھی گئی
دیکھ کر صرف مسکراؤں گا

چند لمحے خفا ہُوئے بھی اَگر
وعدہ ہے پہلے میں مناؤں گا

رات بارہ بجے تُو سوئے اَگر
دِن کے بارہ بجے جگاؤں گا

Leave a Comment

غموں کی دُھول میں شاید بکھر گیا ہو گا

غموں کی دُھول میں شاید بکھر گیا ہو گا
بچھڑ کے مجھ سے وہ جانے کدھر گیا ہو گا

وہاں وہاں مری خشبو بکھر گئی ہو گی
جہاں جہاں بھی مرا ہم سفر گیا ہو گا

میں اُس کے ہجر میں کتنا اُداس رہتا ہوں
یہ سن کے اُس کا بھی چہرہ اُتر گیا ہو گا

یہ کس نے خواب میں آکر جگا دیا مجھ کو
مجھے یقیں ہے وہ سوتے میں ڈر گیا ہو گا

خوشی کی دھوپ نے سنولا دیا تھا رنگ اُس کا
اُداس ہو کے وہ کتنا نکھر گیا ہو گا

نکل پڑا تھا سرِ شام چاند کی صورت
مری تلاش میں وہ تا سحر گیا ہو گا

جو مرے دل کو قفس میں بدل گیا جرارؔ
وہ اپنے گھر کو بھی ویران کر گیا ہو گا

Leave a Comment

آیاتِ ہجر کی بیاں تفسیر کی نہیں

آیاتِ ہجر کی بیاں تفسیر کی نہیں
دل پر گزرتی جو بھی وہ تحریر کی نہیں

کوئی تو بھید ہو گا خموشی کے آس پاس
جلتی ہوئی نگاہ نے تقریر کی نہیں

دستک ترے جمال نے جب بھی ذہن پہ دی
اٹھ کر گلے لگا لیا تاخیر کی نہیں

تجھ کو رکھا سنبھال کے پتلی کے درمیاں
اوجھل کبھی نگاہ سے تصویر کی نہیں

میں تو تمھاری قید میں جیتا ہوں رات دن
ڈھیلی کبھی خیال نے زنجیر کی نہیں

دل میں رکھا تجھے جو تو پوجا ہے اپنا آپ
پھر میں نے اپنی ذات کی تحقیر کی نہیں

تیری جفا کی بخشی نشانی سنبھال لی
مٹتے ہوئے وجود کی تعمیر کی نہیں

دیکھا جو پورا خواب ادھورا ہی رہ گیا
میں نے بھی پھر عیاں کبھی تعبیر کی نہیں

واحد وجود تیرے سے روشن ہے میرا دل
تجھ بن کسی کو چاہوں یہ تقصیر کی نہیں

Leave a Comment

دن نکلے تو سوچ الگ ، شام ڈھلے وجدان الگ

دن نکلے تو سوچ الگ ، شام ڈھلے وجدان الگ
امید الگ ، آس الگ ، سکون الگ ، طوفان الگ​

تشبیہ دوں تو کس سے ، کہ تیرے حسن کا ہر رنگ
نیلا الگ ، زمرد الگ ، یاقوت الگ ، مرجان الگ

تیری الفت کے تقاضے بھی عجب انداز کے تھے
اقرار الگ ، تکرار الگ ، تعظیم الگ ، فرمان الگ

گر ساتھ نہیں دے سکتے تو بانٹ دو یکجان لمحے
مسرور الگ ، نڈھال الگ ، پرکیف الگ ، پریشان الگ

وقت رخصت الوداع کا لفظ جب کہنے لگے
آنسو الگ ، مسکان الگ ، بیتابی الگ ، ہیجان الگ

جب چھوڑ گیا ، تب دیکھا اپنی آنکھوں کا رنگ
حیران الگ ، پشیمان الگ ، سنسان الگ ، بیابان الگ

Leave a Comment

ہم لوگ

ہر اک ہزار میں بس پانچ، سات ہیں ہم لوگ
نصابِ عشق پہ واجب زکوۃ ہیں ہم لوگ
دباؤ میں بھی جماعت کبھی نہیں بدلی
شروع دن سے محبت کے ساتھ ہیں ہم لوگ
جو سیکھنی ہو زبانِ سکوت، بسم اللہ
خموشیوں کے مکمل لغات ہیں ہم لوگ
کہانیوں کے وہ کردار جو لکھے نہ گئے
خبر سے حذف شدہ واقعات ہیں ہم لوگ
یہ انتظار ہمیں دیکھ کر بنایا گیا
ظہورِ ہجر سے پہلے کی بات ہیں ہم لوگ
کسی کو راستہ دے دیں، کسی کو پانی نہ دیں
کہیں پہ نیل کہیں پر فرات ہیں ہم لوگ
ہمیں جلا کے کوئی شب گزار سکتا ہے
سڑک پہ بکھرے ہوئے کاغذات ہیں ہم لوگ

Leave a Comment
%d bloggers like this: