پلٹا تھا احتیاط سے ہم نے ورق ورق
جانے یہ کس مقام پہ قصہ بدل گیا
ہم کو شکایتیں نہیں اتنا گلہ ہے بس
وہ چاہت آپ کی وہ بلانا بدل گیا
This Category will contain all sad poetry
پلٹا تھا احتیاط سے ہم نے ورق ورق
جانے یہ کس مقام پہ قصہ بدل گیا
ہم کو شکایتیں نہیں اتنا گلہ ہے بس
وہ چاہت آپ کی وہ بلانا بدل گیا
آنکھ نے بُور اٹھایا ھے , درختوں کی طرح
یاد آتے ھیں اِسی رُت میں ، بُھلائے ھُوئے لوگ
”عباس تابش“
Leave a Commentبہار رُت میں اجاڑ رستے تکا کرو گے تو رو پڑو گے
کسی سے ملنے کو جب بھی محسن سجا کرو گے تو رو پڑو گے
تمہارے وعدوں نے یار مجھ کو تباہ کیا ہے کچھ اس طرح سے
کہ زندگی میں جو پھر کسی سے دغا کرو گے تو رو پڑو گے
میں جانتا ہوں میری محبت اجاڑ دے گی تمہیں بھی ایسے
کہ چاند راتوں میں اب کسی سے ملا کرو گے تو رو پڑو گے
برستی بارش میں یاد رکھنا تمہیں ستائیں گی میری آنکھیں
کسی ولی کے مزار پر جب دعا کرو گے تو رو پڑو گے
محسن نقوی
Leave a Commentمجھ سے اونچا ترا قد ہے، حد ہے
پھر بھی سینے میں حسد ہے؟ حد ہے
میرے تو لفظ بھی کوڑی کے نہیں
تیرا نقطہ بھی سند ہے، حد ہے
تیری ہر بات ہے سر آنکھوں پر
میری ہر بات ہی رد ہے، حد ہے
عشق میری ہی تمنا تو نہیں
تیری نیت بھی تو بد ہے، حد ہے
زندگی کو ہے ضرورت میری
اور ضرورت بھی اشد ہے، حد ہے
بے تحاشہ ہیں ستارے لیکن
چاند بس ایک عدد ہے، حد ہے
اشک آنکھوں سے یہ کہہ کر نکلا
یہ ترے ضبط کی حد ہے؟ حد ہے
روک سکتے ہو تو روکو جاذلؔ
یہ جو سانسوں کی رسد ہے، حد ہے
پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
فیض احمد فیض
Leave a Commentمندر کی فضاؤں نے جادو سا کیا ہم پر
پرساد اٹھانا تھا بھگوان اٹھا لائے ۔
ﺍِﺗﻨﺎ ﺑﮑﮭﺮﺍ ﮨﻮﮞ ﺍِﮐﭩﮭّﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺍﺏ ﺗُﺠﮭﮯ ﭼُﮭﻮ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭼﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﮮ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﻣِﺮﮮ ﭘﺎﺅﮞ ﮐﯽ
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﺷﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﻣﺮ ﮔﺌﯽ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺷﻌﺮ ﻣﺰﺍﺟﯽ ﻣﯿﺮﯼ
ﺍﺏ ﺗُﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﻣﺼﺮﻉ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺩُﮐﮫ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣِﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﭘﮧ ﻗﺎﺑﺾ ﮨﻮﺍ ﺷﺨﺺ
ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
میں اپنا عکس مجسم نہ کر سکا تو کیا
مجھ آئینے میں پڑاؤ تھا اچھے لوگوں کا
تمام عمر نہ پہچان ہو سکی اپنی
شدید ذہنی دباؤ تھا اچھے لوگوں کا
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
وفا، اخلاص، قربانی،مرو ّت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
سنا دیں عصمتِ مریم کا قصّہ؟
پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم
زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کری ہم
ہماری ہی تمنّا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
کیا تھا عہد جب لحموں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
اُٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم
جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم
نہیں دُنیا کو جب پرواہ ہماری
تو پھر دُنیا کی پرواہ کیوں کریں ہم
برہنہ ہیں سرِبازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردا کیوں کریں ہم
ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھی بھروسہ کیوں کریں ہم
پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم
خَم ہے سرِ انساں تو حَرم میں کچھ ہے
لوگ اَشک بہاتے ہیں تو غم میں کچھ ہے
بے وجہ کسی پر نہیں مرتا کوئی
ہم پہ کوئی مرتا ہے تو ہم میں کچھ ہے
پیر نصیر الدین نصیر
Leave a Comment