ایک طُرفہ تماشا ہے طبیعتِ عُشاق
!….کبھی فراق میں باتیں، کبھی وصال میں چُپ
منیر نیازی
Leave a CommentThis Category will contain all sad poetry
ایک طُرفہ تماشا ہے طبیعتِ عُشاق
!….کبھی فراق میں باتیں، کبھی وصال میں چُپ
منیر نیازی
Leave a Commentاب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں۔۔
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں۔۔
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی،
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں۔۔
غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کر لو،
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں۔۔
تُو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا،
دونوں انسان ہیں تو کیوں نہ حجابوں میں ملیں۔۔
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر،
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں۔۔
اب نہ وہ میں ہوں، نہ تُو ہے، نہ وہ ماضی ہے فراز،
جیسے دو سائے تمنّا کے سرابوں میں ملیں۔۔
احمد فراز
Leave a Commentکسے خبر ہے کہ عمر بس اس پہ غور کرنے میں کٹ رہی ہے
کہ یہ اداسی ہمارے جسموں سے کس خوشی میں لپٹ رہی ہے
میں اس کو ہر روز بس یہی ایک جھوٹ سننے کو فون کرتا
سنو یہاں کوئی مسئلہ ہے تمہاری آواز کٹ رہی ہے
تہذیب حافی
Leave a Commentآئینے میں جو مسکا رہا ہے
میرے ہونٹوں کا دکھ دہرا رہا ہے
میری مرضی میں اس پر جو لٹاؤں
تمھاری جیب سے کیا جارہا ہے
تہذیب حافی
Leave a Commentچلنے کا حوصلہ نہیں ، رُ کنا محال کردیا
عشق کے اس سفر نے تو ، مجھ کو نڈھال کردیا
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کردیا
اے میری گل زمیں تجھے، چاہ تھی ایک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا تیرا حال کردیا
اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامانِ یار منتظر
بانوِ شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کردیا
ممکناں فیصلوں میں ایک ہجر کا ایک فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے تو کمال کردیا
میرے لبوں پہ مُہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو میرا واقف حال کردیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کردیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گِلا کیا
منسبِ دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کردیا
پروین شاکر
Leave a Commentسنوار نوک پلک ابروؤں میں خم کر دے
گرے پڑے ہوئے لفظوں کو محترم کر دے
غرور اس پہ بہت سجتا ہے مگر کہہ دو
اسی میں اس کا بھلا ہے غرور کم کر دے
یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے
چمکنے والی ہے تحریر میری قسمت کی
کوئی چارغ کی لو کو ذرا سے کم کر دے
کسی نے چوم کے آنکھوں کو یہ دعا دی تھی
زمین تیری خدا موتیوں سے نم کر دے
بشیر بدر
Leave a Commentنہ سماعتوں میں تپش گُھلے نہ نظر کو وقفِ عذاب کر
جو سنائی دے اُسے چپ سِکھا جو دکھائی دے اُسے خواب کر
ابھی منتشر نہ ہو اجنبی، نہ وصال رُت کے کرم جَتا!
جو تری تلاش میں گُم ہوئے کبھی اُن دنوں کا حساب کر
مرے صبر پر کوئی اجر کیا مری دو پہر پہ یہ ابر کیوں؟
مجھے اوڑھنے دے اذیتیں مری عادتیں نہ خراب کر
کہیں آبلوں کے بھنور بجیں کہیں دھوپ روپ بدن سجیں
کبھی دل کو تِھل کا مزاج دے کبھی چشمِ تِر کو چناب کر
یہ ہجومِ شہرِ ستمگراں نہ سُنے گا تیری صدا کبھی،
مری حسرتوں کو سُخن سُنا مری خواہشوں سے خطاب کر
یہ جلوسِ فصلِ بہار ہے تہی دست، یار، سجا اِسے
کوئی اشک پھر سے شرر بنا کوئی زخم پھر سے گلاب کر
محسن نقوی
Leave a Commentمیرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے
میں ترا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے
نہ میری نعت کی محتاج ذات ہے تری
نہ تری مدح ہے ممکن ترے خیالوں سے
تُو روشنی کا پیمبر ہے اور میری تاریخ
بھری پڑی ہے شبِ ظلم کی مثالوں سے
ترا پیام محبت تھا اور میرے یہاں
دل و دماغ ہیں پُر نفرتوں کے جالوں سے
یہ افتخار ہے ترا کہ میرے عرش مقام
تُو ہمکلام رہا ہے زمین والوں سے
مگر یہ مفتی یہ واعظ یہ محتسب یہ فقیہہ
جو معتبر ہیں فقط مصلحت کی چالوں سے
خدا کے نام کو بیچیں مگر خدا نہ کرے
اثر پذیر ہوں خلقِ خدا کے نالوں سے
ہے تُرش رو میری باتوں سے صاحبِ منبر
خطیبِ شہر ہے برہم میرے سوالوں سے
میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا
میں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے
میں بے بساط سا شاعر ہُوں پر کرم ترا
کہ باشرف ہُوں قبا و کلاہ والوں سے
احمد فراز
Leave a Commentنئی طرح سے نبھانے کی دِل نے ٹھانی ہے
وگرنہ اُس سے مَحبّت بہت پُرانی ہے
خدا وہ دن نہ دکھائے کہ میں کسی سے سُنوں
کہ تُو نے بھی غمِ دنیا سے ہار مانی ہے
زمیں پہ رہ کے ستارے شکار کرتے ہیں
مزاج اہلِ مَحبّت کا آسمانی ہے!!
ہمیں عزیز ہو کیونکر نہ شامِ غم کہ یہی
بچھڑنے والے ‘ تیری آخری نشانی ہے
اُتر پڑے ہو تو دریا سے پوچھنا کیسا؟
کہ ساحلوں سے اُدھر کتنا تیز پانی ہے
بہت دنوں میں تیری یاد اوڑھ کر اُتری
یہ شام کتنی سنہری ہے کیا سُہانی ہے!
میں کتنی دیر اُسے سوچتا رہوں مُحسنؔ
کہ جیسے اُس کا بدن بھی کوئی کہانی ہے
تُـو نـہ مِـل پـائـی تـو کیـا غـم ہـے کـہ یـوں بھـی جـانـاں
ہـم تیـرے غـم کـے تھـے ، تیـرے تـو طلبـگار نـہ تھـے
تُجـھ سـے بچـھڑی تـو ہـوئی قـریبــــ اِتنـی ، ورنـہ
رابطـے تجـھ سـے کبھـی ایـسے اسـتوار نـہ تھـے