اُس کی زُلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا” اُس کا رُخ ماہتاب جیسا تھا
لوگ پڑھتے تھے خال و خَذ اُس کے” وہ اَدب کی کتابِ جیسا تھا
Leave a CommentThis Category will contain all sad poetry
اُس کی زُلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا” اُس کا رُخ ماہتاب جیسا تھا
لوگ پڑھتے تھے خال و خَذ اُس کے” وہ اَدب کی کتابِ جیسا تھا
Leave a Commentیہ آنکھیں بہت ستاتی ھیں
یادوں کے خواب دکھاتی ھیں
مجھے ساری رات جگاتی ھیں
کب دل کے راز چھپاتی ھیں
پلکوں کے دریچے کھولتی ھیں
کچھ اپنی زبان میں بولتی ھیں
بس اپنی بات منواتی ھیں
یہ آنکھیں بہت ستاتی ھیں
اک آن میں فیصلہ کرتی ھیں
یہ کب رسوائی سے ڈرتی ھیں
یہ گھنگرو باندھ ناچتی ھیں
ہر وقت یہ جاگتی رہتی ھیں
اک کھوج میں بھاگتی رہتی ھیں
تھک ھار کے واپس آتی ھیں
یہ آنکھیں بہت ستاتی ھیں
چپکے سے کہیں لڑ جاتی ھیں
پھر خوابوں سے بھر جاتی ھیں
جب جھوٹے شور مچاتی ھیں
یہ روئیں تو دل بھی روتا ھے
کب ان سے جدا یہ ھوتا ھے
یہ دل کو روگ لگاتی ھیں
کیوں پیار کیا پچھتاتی ھیں
یہ آنکھیں بہت ستاتی ھیں
پرانے دور ، گزشتہ سفر ، خدا حافظ
یہاں تک آتی ہوئی رہگزر ، خدا حافظ
بچھڑ کے جاتے ہوئے عشق ! فی امان اللہ
تو میرے ساتھ رہے گا مگر ، خدا حافظ
میں نے کب کہا کے وہ مرے حق میں فیصلہ کرے
اگر وہ مجھ سے خوش نہیں ہے تو مجھے جدا کرے
میں اس کے ساتھ جس طرح گزارتا ھوں زندگی
اسے تو چائیے کے میرا شکریہ ادا کرے
تہذیب حافی
اک تیرا ہجر دائمی ہے مجھے
ورنہ ہر چیز عارضی ہے مجھے
ایک سایہ مرے تعاقب میں
ایک آواز ڈھونڈتی ہے مجھے
میں سخن میں ہوں اس جگہ کہ جہاں
سانس لینا بھی شاعری ہے مجھے
میں اسے کب کا بھول بھال چکا
زندگی ہے کہ رو رہی ہے مجھے
تہذیب حافی
Leave a Commentعجب ضدیں ھوگئیں باھم، سراب لکھنا، چناب کہنا
اسی کو دل سے برا سمجھنا، اسی کو عزت مآب کہنا
وقت کے راستے سے ہم تم کو
ایک ہی ساتھ تو گُزرنا تھا
ہم تو جی بھی نہیں سکے اِک ساتھ
ہم کو تو ایک ساتھ مرنا تھا
جون ایلیاء
Leave a Commentدستِ شب پر دِکھائی کیا دیں گی
سلوٹیں روشنی میں اُبھریں گی
گھر کی دیواریں میرے جانے پر
اپنی تنہائیوں کو سوچیں گی
اُنگلیوں کو تراش دوُں، پھر بھی
عادتاً اُس کا نام لکھیں گی
رنگ و بوُ سے کہیں پناہ نہیں
خواہشیں بھی کہاں اَماں دیں گی
ایک خوشبوُ سے بچ بھی جاؤں اگر
دوُسری نکہتیں جکڑ لیں گی
خواب میں تِتلیاں پکڑنے کو
نیندیں بچوں کی طرح دوڑیں گی
کِھڑکیوں پر دبیز پردے ہوں
بارشیں پھر بھی دستکیں دیں گی
پروین شاکر
تارِیکیوں کو آگ لگے اور دِیا جلے
یہ رات بَین کرتی رہے اور دِیا جلے
اُس کی زباں میں اِتنا اثر ہے، کہ نصفِ شب
وہ روشنی کی بات کرے، اور دِیا جلے
تم چاہتے ہو تم سے بچھڑ کے بھی خوش رہُوں
یعنی ہَوا بھی چلتی رہے اور دِیا جلے
کیا مجھ سے بھی عزیز ہے تم کو دیے کی لو
پھر تو مِرا مزار بنے اور دِیا جلے
سورج تو میری آنکھ سے آگے کی چیز ہے
میں چاہتا ہُوں، شام ڈھلے اور دِیا جلے
تم لوٹنے میں دیر نہ کرنا، کہ یہ نہ ہو !
دِل تِیرَگی میں ڈوب چُکے اور دِیا جلے
تہذیب حافی
Leave a Commentشب بسر کرنی ہے، محفوظ ٹھکانہ ہے کوئی ؟
کوئی جنگل ہے یہاں پاس میں؟ صحرا ہے کوئی؟
ویسے سوچا تھا محبت نہیں کرنی میں نے
اس لئے کی کہ کبھی پوچھ ہی لیتا ہے کوئی
آپ کی آنکھیں تو سیلاب زدہ خطے ہیں
آپ کے دل کی طرف دوسرا رستہ ہے کوئی؟
جانتا ہوں کہ تجھے ساتھ تو رکھتے ہیں کئی
پوچھنا تھا کہ ترا دھیان بھی رکھتا ہے کوئی؟
دکھ مجھے اس کا نہیں ہے کہ دکھی ہے وہ شخص
دکھ تو یہ ہے کہ سبب میرے علاوہ ہے کوئی
دو منٹ بیٹھ، میں بس آئینے تک ہو آؤں
اُس میں اِس وقت مجھے دیکھنے آتا ہے کوئی
خوف بولا: “کوئی ہے؟ جس کو بُلانا ہے، بُلا!”
دیر تک سوچ کے میں زور سے چیخا: ” ہے کوئی؟؟”
عمیر نجمی
Leave a Comment