Skip to content

Category: Sad Poetry

This Category will contain all sad poetry

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا
ڈنکے کی چوٹ پر ہے زمانہ بدل گیا

الٹا ہماری نسل نے سارا نظام یوں
اپنے بڑوں سے بچوں کا رتبہ بدل گیا

کہہ دو مسافروں سے نہ آئیں وہ لوٹ کر
رستہ یہ ان کے جاتے ہی رستہ بدل گیا

پلٹا تھا احتیاط سے ہم نے ورق ورق
جانے یہ کس مقام پہ قصہ بدل گیا

آرام، عیش خوب ہے ویران گھر میں اب
تنہائیوں سے جب ڈرے ، کمرہ بدل گیا

اتنا تو گر نہ پایا کہ گالی میں دے سکوں
گالی پہ مسکرایا ، ہاں اتنا بدل گیا

لکیں بھی ڈرتے ڈرتے جھپکتا ہوں آج کل
اس بیچ گر جہان کا نقشہ بدل گیا

ہر بار تیری شرطوں پہ تجھ کو منایا ہے
ہر بار زندگی ترا جھگڑا بدل گیا

صیاد نے اڑا دیا پنچھی فضاوں میں
پنچھی کو یوں لگا ہے کہ پنجرہ بدل گیا

سب کچھ بدل گیا ہے بجز ایک عذر کے
کیا کیجئے جناب زمانہ بدل گیا

ہم کو شکایتیں نہیں اتنا گلہ ہے بس
وہ چاہ آپ کی وہ بلانا بدل گیا

ابرک ہمیں بدل کے یوں خوش یار لوگ ہیں
جیسے کوئی خراب سا پرزہ بدل گیا

Leave a Comment

محبت میں غلط فہمی اگر الزام تک پہنچے

محبت میں غلط فہمی اگر الزام تک پہنچے
کسے معلوم کس کا نام کس کے نام تک پہنچے

تیری آنکھوں کے ٹھکرائے ہوئے وہ لوگ تھے شاید
جو اِک شرمندگی ہونٹوں پہ لے کر جام تک پہنچے

سبھی رستوں پہ تھے شعلہ فشاں حالات کے سورج
بہت مشکل سے ہم ان گیسوؤں کی شام تک پہنچے

کسی نے بھی نہ اپنی دھڑکنوں میں دی جگہ جن کو
وہ سارے ولولے میرے دلِ نا کام تک پہنچے

سجا کر آئیں جب سونے کا چشمہ اپنی آنکھوں پر
نظر ہم مفلسوں کی تب کہاں اس بام تک پہنچے

قتیلؔ آئینہ بن جاؤ زمانے میں محبت کا
اگر تم چاہتے ہو شاعری اِلہام تک پہنچے

Leave a Comment

ﮐﭽﮭﮧ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﮐﭽﮭﮧ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ
ﮐﭽﮭﮧ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﭘﺮﺍﺳﺮﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﮨﮯ ﮐﻮﻥ ﺍﺗﺮﺗﺎ ﮨﮯ ؟ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﺎﻧﺪ
ﮐﮩﻨﮯ ﮐﻮ ﺗﻮ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺲ ﺩﯾﻮﺍﺭ .. ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻠﮕﺘﮯ ﮨﻮﮰ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﭘﮧ ﻣﺖ ﺟﺎ
ﭘﻠﮑﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﺮﮮ ﺑﮭﯿﮕﺘﮯ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﯾﮧ ﺩﮬﻮﭖ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺵ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﯽ ﺷﺮﺍﺭﺕ
ﺳﺎﺋﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﻢ ﮨﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺷﺠﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﺑﮯ ﺣﺮﻑ ﻃﻠﺐ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ
ﻭﮦ ﯾﻮﮞ ﮐﮧ ﺳﻮﺍﻟﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺧﻮﺩ ﺩﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﺗﻢ ﻣﻨﺼﻒ ﻭ ﻋﺎﺩﻝ ﮨﯽ ﺳﮩﯽ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ
ﮐﯿﻮﮞ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﭼﮭﯿﻨﭩﮯ ﺳﺮ ﺩﺳﺘﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﺍﮮ ﮨﺠﺮ ﮐﯽ ﺑﺴﺘﯽ ﺗﻮ ﺳﻼﻣﺖ ﺭﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ
ﺳﻨﺴﺎﻥ ﺗﯿﺮﮮ ﮐﻮﭼﮧ ﻭ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﻣﺤﺴﻦ ﮨﻤﯿﮟ ﺿﺪ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺑﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ
ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﻏﺎﻟﺐ ﮐﮯ ﻃﺮﻓﺪﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

Leave a Comment

مرے ہم نفس، مرے ہم نوا، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے

مرے ہم نفس، مرے ہم نوا، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں دردِ عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دُعا نہ دے

میں غمِ جہاں سے نڈھال ہوں کہ سراپا حزن و ملال ہوں
جو لکھے ہیں میرے نصیب میں وہ الم کسی کو خُدا نہ دے

نہ یہ زندگی مری زندگی، نہ یہ داستاں مری داستاں
میں خیال و وہم سے دور ہوں، مجھے آج کوئی صدا نہ دے

مرے گھر سے دور ہیں راحتیں، مجھے ڈھونڈتی ہیں مصیبتیں
مجھ خوف یہ کہ مرا پتہ کوئی گردشوں کو بتا نہ دے

مجھے چھوڑ دے مرے حال پر، ترا کیا بھروسہ اے چارہ گر
یہ تری نوازشِ مختصر ، مرا درد اور بڑھا نہ دے

مرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ گُل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے

درِ یار پہ بڑی دھوم ہے ، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ابھی نیند آئی ہے حُسن کو کوئی شور کر کے جگا نہ دے

مرے داغِ دل سے ہے روشنی یہی روشنی مری زندگی
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تُو ہی بُجھا نہ دے

وہ اُٹھے ہیں لے کے خم و سبو، ارے اے شکیل کہاں ہے تُو
ترا جام لینے کو بزم میں ، کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے

شکیل بدایونی

Leave a Comment

حاکم تھا جسم ، جس کی رعیت میں کاٹ دی

حاکم تھا جسم ، جس کی رعیت میں کاٹ دی
اک عمر ہم نے اپنی معیت میں کاٹ دی

جس کال کی برس ہا برس سے تھی منتظر
وہ اپنی جلد باز طبیعت میں کاٹ دی

اپنی نہیں چلائیں کبھی خود پہ مرضیاں
بس زندگی خدا کی مشئیت میں کاٹ دی

اس بدگمان شخص کی پہلے پہل سنی
جب بات بڑھ گئی تو اذیت میں کاٹ دی

سوچا کہ میرا کون ہے جس کے لیے لکھوں ؟
تحریر جو لکھی تھی وصیت میں ، کاٹ دی

نیت پہ انحصار تھا اعمال کا سو ، عمر
ہم نے ترے حصول کی نیت میں کاٹ دی

کومل جوئیہ

Leave a Comment

جستجو میں تیری پھرتا ہوں نجانے کب سے؟

جستجو میں تیری پھرتا ہوں نجانے کب سے؟
آبلہ پا ہیں مرے ساتھ زمانے- کب سے

میں کہ قسمت کی لکیریں بھی پڑھا کرتا تھا
کوئی آیا ہی نہیں ہاتھ دکھانے کب سے

نعمتیں ہیں نہ عذابوں کا تسلسل اب تو
مجھ سے رُخ پھیر لیا میرے خدا نے کب سے

جان چھٹرکتے تھے کبھی خود سے غزالاں جن پر
بھول بیٹھے ہیں شکاری وہ نشانے کب سے

وہ تو جنگل سے ہواؤں کو چُرا لاتا تھا
اُس نے سیکھے ہیں دیے گھر میں جلانے کب سے؟

شہر میں پرورشِ رسمِ جنوں کون کرے؟
یوں بھی جنگل میں یاروں کے ٹھکانے کب سے؟

آنکھ رونے کو ترستی ہے تو دل زخموں کو
کوئی آیا ہی نہیں احسان جتانے کب سے

جن کے صدقے میں بسا کرتے تھے اُجڑے ہوئے لوگ
لُٹ گئے ہیں سرِ صحرا وہ گھرانے کب سے

لوگ بے خوف گریباں کو کُھلا رکھتے ہیں
تِیر چھوڑا ہی نہیں دستِ قضا نے کب سے

جانے کب ٹوٹ کے برسے گی ملامت کی گھٹا؟
سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں دِوانے کب سے

جن کو آتا تھا کبھی حشر جگانا محسن
بختِ خفتہ کو نہ آئے وہ جگانے کب سے

محسن نقوی

Leave a Comment

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت

سینے میں اگر سوز سلامت ہو تو خود ہی
اشعار میں ڈھل جاتی ہے افکار کی صورت

جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سوا کیا ترے دیدار کی صورت

پہچان لیا تجھ کو تری شیشہ گری سے
آتی ہے نظر فن سے ہی فنکار کی صورت

اشکوں نے بیاں کر ہی دیا رازِ تمنا
ہم سوچ رہے تھے ابھی اظہار کی صورت

اس خاک میں پوشیدہ ہیں ہر رنگ کے خاکے
مٹی سے نکلتے ہیں جو گلزار کی صورت

دل ہاتھ پہ رکھا ہے کوئی ہے جو خریدے؟
دیکھوں تو ذرا میں بھی خریدار کی صورت

صورت مری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکار کی صورت

واصفؔ کو سرِ دار پکارا ہے کسی نے
انکار کی صورت ہے نہ اقرار کی صورت

Leave a Comment

کوئی ایسا خطّہءارض ہو، جہاں زندگی کا سماج ہو

کوئی ایسا خطّہءارض ہو، جہاں زندگی کا سماج ہو
جہاں آنسووں کا لحاظ ہو، جہاں روشنی کا رواج ہو

جہاں بیڑیاں نہ ہوں پاوں میں، جہاں چادروں کو گھٹن نہ ہو
جہاں خواب اپنا سفر کریں تو کسی نگہ کی چبھن نہ ہو

کوئی نظم ایسا دیار ہو، جہاں اک دئیے کا مزار ہو
جہاں منّتوں میں غزل بندھے،جہاں آیتوں کا حصار ہو

وہیں ایک حلقہءعاشقاں، ترا ذکر کرتا ہوا ملے
کوئی سر بہ زانو پڑا ملے، کوئی آہ بھرتا ہوا ملے

جہاں لوگ ایسے بھلے بسیں، جو مسافروں کو پناہ دیں
جہاں برگدوں سے بزرگ ہوں، کہ جو نوجوانوں کو راہ دیں

جہاں بات خلقِ خدا کی ہو، جہاں رِیت صرف دعا کی ہو
جہاں استعارے نئے بنیں، جہاں شاعری ہو، بلا کی ہو

کوئی ایک ایسی جگہ جہاں ! کسی آدمی کو ضرر نہ ہو
جہاں پر سکون ہو زندگی, جہاں قتل ہونےکا ڈر نہ ہو

علی زریون

Leave a Comment

اس کعبہِ دل کو کبھی ویران نہیں دیکھا​

اس کعبہِ دل کو کبھی ویران نہیں دیکھا​
اُس بت کو کب اللہ کا مہماں نہیں دیکھا​

کیا ہم نے عذابِ شبِ ہِجراں نہیں دیکھا​
تُم کو نہ یقیں آئے تو ہاں ہاں نہیں دیکھا​

کیا تو نے میرا حال پریشاں نہیں دیکھا​
اس طرح سے دیکھا کہ میری جاں نہیں دیکھا​

جب پڑا وصل میں شوخی سے کسی کا​
پھر ہم نے گریباں کو گریباں نہیں دیکھا​

ہم جیسے ہیں،ایسا کوئی دانا نہیں پایا​
تم جیسے ہو،ایساکوئی ناداں نہیں دیکھا​

راحت کے طلبگا رہزاروں نظر آئے​
محشر میں کوئی حور کا خواہاں نہیں دیکھا​

نظروں میں سمایا ہوا ساماں نہیں دیکھا​
لیلی نے کبھی قیس کو عریاں نہیں دیکھا​

اُس بُت کی محبت میں قیامت کا مزہ ہے​
کافر کو دوزخ میں پشیماں نہیں دیکھا​

کہتے ہو کہ بس دیکھ لیا ہم نے ترا دل​
دل دیکھ لیا اورپھر ارماں نہیں دیکھا​

کیا ذوق ہے کیا شوق ہے سو مرتبہ دیکھوں​
پھر بھی یہ کہوں جلوہ جاناں نہیں دیکھا​

محشر میں وہ نادم ہوں خُدا یہ نہ دِکھائے​
آنکھوں سے کبھی اُس کو پشیماں نہیں دیکھا​

جو دیکھتے ہیں دیکھنے والے تِرے انداز​
تو نے وہ تماشا ہی میری جاں ہی نہیں دیکھا​

ہر چند تیرے ظلم کی کُچھ حد نہیں ظالم​
پر ہم نے کسی شخص کو نالاں نہیں دیکھا​

گو نزع کی حالت ہے مگر پھر یہ کہوں گا​
کُچھ تمُ نے مرِا حالِ پریشاں نہیں دیکھا​

تُم غیر کی تعریف کروقہر خدُا ہے​
معشوق کو یوں بندہ احساں نہیں دیکھا​

کیا جذب محبت ہے کہ جب سینہ سے کھینچا​
سفاک تیرے تیر میں پیکاں نہیں دیکھا​

ملتا نہیں ہمکو دل گمُ گشتہ ہمارا​
تو نے تو کہیں اے غم جاناں نہیں دیکھا​

جو دن مجھے تقدیر کی گردش نے دِکھایا​
تو نے بھی وہ اے گردِشِ دوراں نہیں دیکھا​

کیا داد ملے اُسے پریشانیِ دل کی​
جس بتُ نے کبھی خوابِ پریشاں نہیں دیکھا​

میں نے اُسے دیکھا،مرے دل نے اُسے دیکھا​
تو نے اُسے اے دیدہ حیراں نہیں دیکھا​

تُمکو مرے مرنے کی یہ حسرت یہ تمنا​
اچھوں کو بُری بات کا ارماں نہیں دیکھا​

لو اور سنو کہتے ہیں وہ دیکھ کے مجھکو​
جو حال سنا تھا وہ پریشاں نہیں دیکھا​

تم منہ سے کہے جاؤ کہ دیکھا ہے زمانہ​
آنکھیں تو یہ کہتی ہیں ہاں ہاں نہیں دیکھا​

کیا عیش سے معمور تھی وہ انجمنِ ناز​
ہم نے تو وہاں شمع کو گرِیاں نہیں دیکھا​

کہتی ہے مری قبر پہ رو رو کے محبت​
یوں خاک میں ملتے ہوئے ارماں نہیں دیکھا​

کیوں پوچھتے ہو کون ہے یہ کسکی ہے شہرت​
کیا تم نے کبھی داغؔ کا دیوان نہیں دیکھ

Leave a Comment

یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے نہ گئے

یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے نہ گئے
کیا پذیرائی ہو اُن کی جو بُلائے نہ گئے

اب وہ نیندوں کا اُجڑنا تو نہیں دیکھیں گے
وہی اچھّے تھے جنھیں خواب دکھائے نہ گئے

رات بھر میں نے کھُلی آنکھوں سے سپنا دیکھا
رنگ وہ پھیلے کہ نیندوں سے چُرائے نہ گئے

بارشیں رقص میں تھیں اور زمیں ساکت تھی
عام تھا فیض مگر رنگ کمائے نہ گئے

پَر سمیٹے ہوئے شاخوں میں پرندے آ کر
ایسے سوئے کہ ہَوا سے بھی جگائے نہ گئے

تیز بارش ہو ، گھنا پیڑ ہو ، اِک لڑکی ہو
ایسے منظر کبھی شہروں میں تو پائے نہ گئے

روشنی آنکھ نے پی اور سرِ مژگانِ خیال
چاند وہ چمکے کہ سُورج سے بجھائے نہ گئے

پروین شاکر

Leave a Comment
%d bloggers like this: