تُـو نـہ مِـل پـائـی تـو کیـا غـم ہـے کـہ یـوں بھـی جـانـاں
ہـم تیـرے غـم کـے تھـے ، تیـرے تـو طلبـگار نـہ تھـے
تُجـھ سـے بچـھڑی تـو ہـوئی قـریبــــ اِتنـی ، ورنـہ
رابطـے تجـھ سـے کبھـی ایـسے اسـتوار نـہ تھـے
this will contains Qatat
تُـو نـہ مِـل پـائـی تـو کیـا غـم ہـے کـہ یـوں بھـی جـانـاں
ہـم تیـرے غـم کـے تھـے ، تیـرے تـو طلبـگار نـہ تھـے
تُجـھ سـے بچـھڑی تـو ہـوئی قـریبــــ اِتنـی ، ورنـہ
رابطـے تجـھ سـے کبھـی ایـسے اسـتوار نـہ تھـے
پلٹا تھا احتیاط سے ہم نے ورق ورق
جانے یہ کس مقام پہ قصہ بدل گیا
ہم کو شکایتیں نہیں اتنا گلہ ہے بس
وہ چاہت آپ کی وہ بلانا بدل گیا
میں اپنا عکس مجسم نہ کر سکا تو کیا
مجھ آئینے میں پڑاؤ تھا اچھے لوگوں کا
تمام عمر نہ پہچان ہو سکی اپنی
شدید ذہنی دباؤ تھا اچھے لوگوں کا
خَم ہے سرِ انساں تو حَرم میں کچھ ہے
لوگ اَشک بہاتے ہیں تو غم میں کچھ ہے
بے وجہ کسی پر نہیں مرتا کوئی
ہم پہ کوئی مرتا ہے تو ہم میں کچھ ہے
پیر نصیر الدین نصیر
Leave a Commentﻣﺠﮫ ﭘﮧ ﺟﻮ ﻏﯿﺮ ﮐﺎ ﻗﺒﻀﮧ ﮨﮯ ﭼﮭﮍﺍﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ
ﺟﺴﻢ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻣﻼﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ
ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﯿﮯ ﭘﮭﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﺎﺷﮧ ﻣﺎﺷﮧ
ﮐﻮﺯﮦ ﮔﺮ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﺎﮎ ﭘﮧ ﻻﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ
جوڑتا رھتا ھُوں ٹُوٹی ھوئی آوازوں کو
شور اِتنا ھے کہ سُنائی نہیں دیتا ، سائیں
باھر اِک دشت بتاتا ھے کہ آزاد ھُوں مَیں
کوئی اندر سے رِھائی نہیں دیتا ، سائیں
اس راز سے بھی پردہ آج اٹھا گیا ہوں میں
سبھی رشتوں سے باخدا اکتا گیا ہوں میں
متاعءدل کا تھا رشتہ اک اجنبی سے! افسوس
بےاعتباری میں اسکو بھی ٹھکرا گیا ہوں میں
بہت اداس ہے کوئی
تیرے روٹھ جانے سے
کبھی تو پکار
کسی بھی بہانے سے
وہ جنون کہیں جو نہ مٹ سکے
جو نہ مل سکے وہ قرار دے
میں اصولِ عشق کی بساط ہوں
تو غرورِ عشق سے مات دے