اے رَبِ جہاں، پنجتن پاک کے خالق
اِس قوم کا دامن غمِ شبیر سے بھر دے
بچوں کو عطا کر علی اصغرؑ کا تبسم
بوڑھوں کو حبیب ابنِ مظاہر کی نظر دے
کم سِن کو ملے ولولہ عونؑ و محمدؑ
ہر ایک جواں کو علی اکبر کا جگر دے
ماؤں کو سِکھا ثانیءِ زہراؑ کا سلیقہ
بہنوں کو سکینہؑ کی دعاؤں کا اثر دے
یارَب تجھے بیماری عابدؑ کی قسم ہے
بیمار کی راتوں کو شفایاب سحَر دے
مُفلس پہ زَرومال و جواہر کی ہو بارش
مقروض کا ہر قرض ادا غیب سے کر دے
پابندِ رَسن زینبؑ و کلثومؑ کا صدقہ
بے جُرم اسیروں کو رہائی کی خبر دے
جو مائیں بھی رُوتی ہیں بیادِ علی اصغرؑ
اُن ماؤں کی آغوش کو اولاد سے بھر دے
جو حق کے طرافدار ہوں وہ ہاتھ عطا کر
جو مجلسِ شبیرؑ کی خاطر ہو وہ گھر دے
قسمت کو فقط خاکِ شفا بخش دے مولاؑ
مَیں یہ نہیں کہتا کہ مجھے لعل و گُہر دے
آنکھوں کو دِکھا روضہءِ مظلوم کا منظر
قدموں کو نجف تک بھی کبھی اِذنِ سفر دے
جو چادرِ زینبؑ کی عزادار ہیں مولا
محفوظ رہیں ایسی خواتین کے پردے
غم کوئی نہ دے ہم کو سِوائے غمِ شبیرؑ
شبیرؑ کا غم بانٹ رہا ہے تو اِدھر دے
کب تک رہوں دُنیا میں یتیموں کی طرح
وارث مِرا پردے میں ہے، ظاہر اُسے کر دے
منظور ہے خوابوں میں ہی آقا کی زیارت
پرواز کی خواہش ہے نہ جبریل کے”پَر” دے
جس دَر کے سوالی ہیں فرشتے بھی بشر بھی
آوارہء منزل ہوں مجھے بھی وہی دَر دے
جو دین کے کام آئے وہ اَولاد عطا کر
جو کَٹ کے بھی اُونچا ہی نظر آئے وہ سَر دے
خیراتِ دَرِ شاہِؑ نجف چاہیے مجھ کو
سَلمان و ابوذر کی طرح کوئی ہنر دے
صحراؤں میں عابدؑ کی مُسافت کے صِلے میں
بھٹکے ہوئے رَہرو کو ثمردار شجر دے
سَر پر ہو سدا پرچمِ عباسؑ کا سایہ
محسن کی دُعا ختم ہے اَب اِس کا اثر دے