Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

آنے والو جلدی آو، وقت نہیں

آنے والو جلدی آو، وقت نہیں
سمٹ رہا ہے اب پھیلاو، وقت نہیں

بس اک موج کی دوری پر ہوں میں تم سے
ہاتھ پکڑ لو؛ ہاتھ بڑھاو، وقت نہیں

وقت نہیں ہے اب تاخیر کا مطلب موت
لوگو! لوگوں کو سمجھاو، وقت نہیں

وہ جو وقت کا بالکل آخری لمحہ ہے
اس لمحے پر گھات لگاو؛ وقت نہیں

دشمن اس جنگل میں چھپ کر بیٹھا ہے
شہر کی جانب دیے بہاو، وقت نہیں

جلد ہی آگ لبوں تک بھی آ جائے گی
جلنے والو شور مچاو وقت نہیں

تم نے کہا تھا سارے گھاو بھر دیتا ہے
بھر دیتا ہے سارے گھاو وقت، نہیں!

پو پھٹنے میں ایک ستارہ باقی ہے
ڈوبنے سے پہلے سو جاو، وقت نہیں

چھو لینے سے منظر غائب ہو جائے گا
سعدی واپس خواب میں جاو، وقت نہیں

Leave a Comment

جُھک کے چلتا ہوں کہ قدّ اُس کے برابر نہ لگے

جُھک کے چلتا ہوں کہ قدّ اُس کے برابر نہ لگے
دوسرا یہ کہ اُسے راہ میں ٹھوکر نہ لگے

یہ ترے ساتھ تعلّق کا بڑا فائدہ ہے
آدمی ہو بھی تو اوقات سے باہر نہ لگے

نیم تاریک سا ماحول ہے درکار مجھے
ایسا ماحول جہاں آنکھ لگے ۔۔۔۔ ڈر نہ لگے

ماؤں نے چومنے ہوتے ہیں بریدہ سَر بھی
اُن سے کہنا کہ کوئی زخم جبیں پر نہ لگے

یہ طلب گار نگاہوں کے تقاضے ہر سُو
کوئی تو ایسی جگہ ہو جو ‘ مجھے گھر نہ لگے

یہ جو آئینہ ہے’ دیکھوں تو خلا دِکھتا ہے
اِس جگہ کچھ بھی نہ لگواؤں تو بہتر نہ لگے؟

تم نے چھوڑا تو کسی اور سے ٹکراؤں گا مَیں
کیسے ممکن ہے کہ اندھے کا کہیں سَر نہ لگے

عُمیـــر نجمــیؔ

Leave a Comment

ضرر رساں ہوں بہت، آشنا ہوں میں خود سے

ضرر رساں ہوں بہت، آشنا ہوں میں خود سے
تبھی تو فاصلہ رکھ کر کھڑا ہوں میں خود سے

سلام! کون؟ کہیں مل چکے ہیں کیا پہلے؟
ہزار بار یہ سب کہہ چکا ہوں میں خود سے

جھگڑتے وقت ذرا بھی لحاظ رکھتا نہیں
اگرچہ عمر میں کافی بڑا ہوں میں خود سے

مجھے ملی ہے گزشتہ برس کی اک تصویر
کہیں کہیں سے بہت مل رہا ہوں میں خود سے

جو درمیان سے تم ہٹ گئے تو ایک گیا
تمہاری سوچ ہے، جتنا خفا ہوں میں خود سے

سوال لکھ کے یہاں رکھ دو اور تم جاؤ
یہ کام کر لوں تو پھر پوچھتا ہوں میں خود سے

کہاں تلاش کروں؟ کیا کہوں کسی سے، عمیر!
کہ آتے جاتے کہیں گر گیا ہوں میں خود سے؟

عمیر نجمی

Leave a Comment

وہ مثلِ آئینہ دیوار پر رکھا ہوا تھا

وہ مثلِ آئینہ دیوار پر رکھا ہوا تھا
جو اک انعام میری ہار پر رکھا ہوا تھا

میں بائیں ہاتھ سے دشمن کے حملے روکتا تھا
کہ دایاں ہاتھ تو دستار پر رکھا ہوا تھا

وہی تو ایک صحرا آشنا تھا قافلے میں
وہ جس نے آبلے کو خار پر رکھا ہوا تھا

وصال و ہجر کے پھل دوسروں کو اس نے بخشے
مجھے تو رونے کی بیگار پر رکھا ہوا تھا

مسلّم تھی سخاوت جس کی دنیا بھر میں اس نے
مجھے تنخواہ بے دینار پر رکھا ہوا تھا

خطِ تقدیر کے سفاک و افسردہ سرے پر
مرا آنسو بھی دستِ یار پر رکھا ہوا تھا

فلک نے اس کو پالا تھا بڑے ناز و نعم سے
ستارہ جو ترے رخسار پر رکھا ہوا تھا

وہی تو زندہ بچ کے آئے ہیں تیری گلی سے
جنہوں نے سر تری تلوار پر رکھا ہوا تھا

وہ صبح و شام مٹی کے قصیدے بھی سناتا
اور اس نے ہاتھ بھی غدار پر رکھا ہوا تھا

ترے رستے میں میری دونوں آنکھیں تھیں فروزاں
دیا تو بس ترے اصرار پر رکھا ہوا تھا

جمال احسانی

Leave a Comment

نقش تھا اور نام تھا ہی نہیں

نقش تھا اور نام تھا ہی نہیں
یعنی میں اتنا عام تھا ہی نہیں

خواب سے کام تھا وہاں کہ جہاں
خواب کا کوئی کام تھا ہی نہیں

سب خبر کرنے والوں پر افسوس
یہ خبر کا مقام تھا ہی نہیں

تہ بہ تہ انتقام تھا سر خاک
انہدام انہدام تھا ہی نہیں

ہم نے توہین کی قیام کیا
اس سفر میں قیام تھا ہی نہیں

اب تو ہے پر ہمارے وقتوں میں
شیشۂ صبح و شام تھا ہی نہیں

وہ تو ہم نے کہا کہ تم بھی ہو
ورنہ کوئی نظام تھا ہی نہیں

شاہین عباس

Leave a Comment

میں سانس لیتے ضعیف جسموں میں رہ چکا ہوں

میں سانس لیتے ضعیف جسموں میں رہ چکا ہوں
میں حادثہ ہوں اداس لوگوں میں رہ چکا ہوں

قدیم نسلوں کے گھر نحوست کا دیوتا تھا
جدید نسلوں کے زرد کمروں میں رہ چکا ہوں

میں نیم مردہ اسیر انساں کا قہقہہ ہوں
میں سرخ اینٹوں کے خونی پنجروں میں رہ چکا ہوں

میں ایسا سر ہوں جو دشت غربت میں کٹ گیا تھا
میں سر بریدہ شہید لاشوں میں رہ چکا ہوں

میں راجا گدھ ہوں نہ دشت زادہ نہ ماس خورہ
میں پھر بھی بستی کے مردہ خوروں میں رہ چکا ہوں

میں اسم اعظم کا معجزہ ہوں میں ناخدا ہوں
میں چاند تاروں میں اور غاروں میں رہ چکا ہوں

یقین جانو یہ میرے بالوں میں گرد دیکھو
میں شہر والا تمہارے گاؤں میں رہ چکا ہوں

میں یوم عاشور تشنگی کا سراب بن کر
خلیل زادوں کے خالی کوزوں میں رہ چکا ہوں

Leave a Comment

جانے اس نے کیا دیکھا شہر کے منارے میں


جانے اس نے کیا دیکھا شہر کے منارے میں
پھر سے ہو گیا شامل زندگی کے دھارے میں

اسم بھول بیٹھے ہم جسم بھول بیٹھے ہم
وہ ہمیں ملی یارو رات اک ستارے میں

اپنے اپنے گھر جا کر سکھ کی نیند سو جائیں
تو نہیں خسارے میں میں نہیں خسارے میں

میں نے دس برس پہلے جس کا نام رکھا تھا
کام کر رہی ہوگی جانے کس ادارے میں

موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں

ثروتؔ حسین

Leave a Comment

اک گھڑی وصل کی بے وصل ہوئی ہے مجھ میں

اک گھڑی وصل کی بے وصل ہوئی ہے مجھ میں
کس کے آنے کی خبر قتل ہوئی ہے مجھ میں

سانس لینے سے بھی بھرتا نہیں سینے کا خلا
جانے کیا شے ہے جو بے دخل ہوئی ہے مجھ میں

جل اٹھے ہیں سر مژگاں تری خوشبو کے چراغ
اب کے خوابوں کی عجب فصل ہوئی ہے مجھ میں

مجھ سے باہر تو فقط شور ہے تنہائی کا
ورنہ یہ جنگ تو دراصل ہوئی ہے مجھ میں

تو نے دیکھا نہیں اک شخص کے جانے سے سلیمؔ
اس بھرے شہر کی جو شکل ہوئی ہے مجھ میں

سلیم کوثر

Leave a Comment

لوگوں کے لیے صاحبِ کردار بھی میں تھا

لوگوں کے لیے صاحبِ کردار بھی میں تھا
خوُد اپنی نگاہوں میں گُنہگار بھی میں تھا

کیوں اب مِرے مَنصب کی سلامی کو کھڑے ہو
یارو! کبھی رُسوا سرِ بازار بھی میں تھا

میں خوُد ہی چُھپا تھا کفِ قاتل کی شِکن میں
مقتوُل کی ٹوُٹی ہُوئی تلوار بھی میں تھا

میری ہی صدا لَوٹ کے آئی ہے مُجھی تک
شاید حدِ افلاک کے اُس پار بھی میں تھا

منزل پہ جو پہنچا ہُوں تو معلوم ہُوا ہے
خوُد اپنے لیے راہ کی دیوار بھی میں تھا

اب میرے تعارف سے گُریزاں ہے توُ، لیکن
کل تک تِری پہچان کا معیار بھی میں تھا

دیکھا تو میں اَفشا تھا ہر اِک ذہن پہ محسنؔ
سوچا تو پسِ پردہء اسرار بھی میں تھا

Leave a Comment

آسماں سے بھی ہم اتارے گئے

آسماں سے بھی ہم اتارے گئے
اور زمیں پر بھی کب سنوارے گئے
جیسے کٹتی ہیں ہجر کی راتیں
زیست ہم تجھ سے یوں گزارے گئے
بے رخی تک نہ بات پہنچی تھی
ہم عنایات میں ہی مارے گئے
جن کی خاطر پچھاڑا طوفاں کو
سب سے پہلے وہی کنارے گئے
ہم نے مڑ کر تمہی کو ڈھونڈا ہے
جب جہاں جس گھڑی پکارے گئے
نہ جگہ تھی ہماری جس دل میں
ہم اسی دل میں کیوں اتارے گئے
بولو وہ کیا کریں بصارت کا
جن کی آنکھوں کے سب نظارے گئے
جینا آسان ہو گیا تیرا
جب سے ابرک ترے سہارے گئے

اتباف ابرک

Leave a Comment
%d bloggers like this: