Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

سرِ بازار سجاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

سرِ بازار سجاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
گر قلم بیچ کے کھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

جھوٹ کے پاؤں بناتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
سچ ہی جب لکھ نہیں پاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

ظلم انصاف بتاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
راہ سیدھی نہ دکھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

شاہ کے ناز اٹھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
وقت کی دھونس میں آتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

خضر ، رہزن کو بتاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
دیے راہوں کے بجھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

آنکھ دیکھا نہ دکھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
خونِ ناحق جو چھپاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

بات بے وجہ بڑھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
نفرتیں دل میں جگاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

حق کو باطل سے ملاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
معنی مرضی کے سُجھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

کفر مجبوری بتاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
حکم اللہ کے بھلاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

خود کو نظروں سے گراتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
سر قلم کا جو جھکاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

خود کو لفظوں میں نچاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
بس خریدار رجھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

Leave a Comment

وہاں وکیل قطاروں میں جب قطارے گئے

وہاں وکیل قطاروں میں جب قطارے گئے
مری طرف سے علم اور تیس پارے گئے

ترا بچھڑنا بھی میرے لیے مفید رہا
کہ اس خسارے کے باعث کئی خسارے گئے

بجا کہ تیری ہنسی کا کوئی قصور نہیں
مگر جو لوگ غلط فہمیوں میں مارے گئے

میں اب یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا کروں ترے ساتھ
جنہیں تو ساتھ لے آیا تھا وہ تو سارے ، گئے

میں جنگ جیت کے بھی خوش نہیں ہوں ، رو رہا ہوں
کہ اس طرف سے بھی جتنے گئے ، ہمارے گئے

اب اپنا نام کمائیں کہ ایک نام کے ساتھ
بہت ہے جتنا پکارے گئے ، پکارے گئے

ذرا سی پھونک ملی اور ہوا میں اڑنے لگے
ہمارے دوست غبارے تھے اور غبارے ، گئے

افکار علوی

Leave a Comment

ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور

ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور
بڑھ جائے گی شاید مری تنہائی ذرا اور

کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور

پھر ہاتھ پہ زخموں کے نشاں گن نہ سکو گے
یہ الجھی ہوئی ڈور جو سلجھائی ذرا اور

تردید تو کر سکتا تھا پھیلے گی مگر بات
اس طور بھی ہوگی تری رسوائی ذرا اور

کیوں ترک تعلق بھی کیا لوٹ بھی آیا؟
اچھا تھا کہ ہوتا جو وہ ہرجائی ذرا اور

ہے دیپ تری یاد کا روشن ابھی دل میں
یہ خوف ہے لیکن جو ہوا آئی ذرا اور

لڑنا وہیں دشمن سے جہاں گھیر سکو تم
جیتو گے تبھی ہوگی جو پسپائی ذرا اور

بڑھ جائیں گے کچھ اور لہو بیچنے والے
ہو جائے اگر شہر میں مہنگائی ذرا اور

اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں
کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور

Leave a Comment

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

بے فائدہ الم نہیں بے کار غم نہیں
توفیق دے خُدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں

میری زباں پہ شکوہ اہل ستم نہیں
مُجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں

یا رب ہجوم درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا ابھی مری آنکھیں بھی نم نہیں

شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتا
تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں

اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد
سایہ نہیں جہاں کوئی نقش قدم نہیں

ملتا ہے کیوں مزہ ستم روزگار میں
تیرا کرم بھی خود جو شریک ستم نہیں

زاہد کُچھ اور ہو نہ ہو میخانے میں مگر
کیا کم یہ ہے کہ فتنہ دیر و حرم نہیں

مرگ جگر پہ کیوں تری آنکھیں ہیں اشک ریز
اک سانحہ سہی مگر اتنا اہم نہیں

Leave a Comment

یوں ہی رکّھے گا کیا نڈھال مجھے

یوں ہی رکّھے گا کیا نڈھال مجھے
اے جنوں کر دے باکمال مجھے

خاک اپنا خیال رکھّوں گا
کب نہیں ہے ترا خیال مجھے

وقت سے پہلے توڑ دے نہ کہیں
ٹوٹ جانے کا احتمال مجھے

میں کہ ہوں اک دیا محبت کا
طاقِ نسیاں سے مت نکال مجھے

تیری جانب جھکا سا رہتا ہوں
آگے آتا تھا اعتدال مجھے

غور سے اپنے دل کی بھی کبھی سن
میرے منصب پہ کر بحال مجھے

مل گیا ہوتا گر جواب کوئی
یوں نہ چبھتا مرا سوال مجھے

تیری آنکھوں سے پوچھ لوں گا کبھی
مت بتا اپنے دل کا حال مجھے

وقتِ فرقت کا مت حساب بتا
لمحہ لمحہ لگا ہے سال مجھے

تیری چشمِ خلوص افشاں سے
گر نہ جاؤں کہیں سنبھال مجھے

اُن کو پانے کی ہے خوشی راغبؔ
خود کو کھونے کا کیا ملال مجھے

افتخار راغبؔ

Leave a Comment

آنکھوں سے ہی بتلائیں گے ! جس کا قصّہ پوچھے گا

آنکھوں سے ہی بتلائیں گے ! جس کا قصّہ پوچھے گا
ہم تو چُپ کے پِیر ہیں اب تُو ہم سے کیا کیا پوچھے گا ؟

رَگ رَگ اندر عشق ہے کتنا ؟ سب پیشانی جانتی ہے
کچی نیّت باندھنے والو ! تم کو سجدہ پوچھے گا

سرخ آنکھوں پر بات تو ہو گی! دیکھو یار زمانہ ہے
جب بتلا نہیں سکتی ہو تو ! مت رو ! ورنہ پوچھے گا

اتنی پردہ دار اذیت کیوں چپ رہ کر کاٹتے ہو ؟
چاہے مجھ سے درد نہ پوچھے لیکن پردہ پوچھے گا

میں بھی خود ہی اک دن اپنا نام اور شکل گنوا دوں گا
تُو بھی کون سا ان گلیوں میں آ کر میرا پوچھے گا

آپ ملے تو اس ملنے میں ہم یہ بات ہی بھول گئے
اک دن آپ کا ہجر بھی ہم کو اچھا خاصا پوچھے گا

ہم سے ہمارا چھوڑ کے اِس کا، اُس کا، سب کا پوچھ لیا
سوچ رہے ہیں اب وہ ہم سے جانے کس کا پوچھے گا

چھوڑ دِلا ! تُو اِن لوگوں کی باتوں سے بے چین نہ ہو
اِن کی آگے خیر نہیں ہے ! اِن کو اللہ پوچھے گا

جس دن آپ نے اس دنیا سے دور کہیں جا بسنا ہے
زین اسی دن سکھ بھی آپ کے گھر کا رستہ پوچھے گا

زین شکیل

Leave a Comment

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
 مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

 ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
 کوئی بات صبرآزما چاہتا ہوں

 یہ جنّت مبارک رہے زاہدوں کو
 کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

 ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
 وہی لن ترانی سُنا چاہتا ہوں

 کوئی دَم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
 چراغِ سحَر ہوں، بُجھا چاہتا ہوں

 بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
 بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں

Leave a Comment

ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں

ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں
ناز والے نیاز کیا جانیں

کب کسی در کی جُبّہ سائی کی
شیخ صاحب نماز کیا جانیں

جو رہِ عشق میں قدم رکھیں
وہ نشیب و فراز کیا جانیں

پوچھئے مے کشوں سے لطفِ شراب
یہ مزہ پاک باز کیا جانیں

حضرتِ خضر جب شہید نہ ہوں
لطفِ عمرِ دراز کیا جانیں

جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے
آپ بندہ نواز کیا جانیں

داغ دہلوی

Leave a Comment

تِرے خواب بھی ہُوں گنوارہا ، ترے رنگ بھی ہیں بکھررہے

تِرے خواب بھی ہُوں گنوارہا ، ترے رنگ بھی ہیں بکھررہے
یہی روز و شب ہیں تو جانِ جاں یہ وظیفہ خوار تو مررہے

وہی روزگار کی محنتیں کہ نہیں ہے فرصتِ یک نَفَس
یہی دن تھے کام کے اور ہم کوئی کام بھی نہیں کررہے

ہمیں شکوا تیری ادا سے ہے تری چشمِ حال فزا سے ہے
کہ دریچہ آگے بھی ہم ترے یونہی بے نشاطِ ہُنر رہے

مرا دل ہے خوں کہ ہوا یہ کیا ترے شہرِ ماجرا خیز کو
نہ وہ ہوش ہے نہ خروش ہے ، نہ وہ سنگ ہیں نہ وہ سر رہے

ہے مقابلے کی حریف کو بہت آرزو مگر اس طرح
کہ ہمارے ہاتھ میں دَم کو بھی کوئی تیغ ہو ، نہ سپر رہے

ّعجیب ایک ہم نے ہُنر کیا ، وہ ہُنر بطورِ دِگر کیا
کہ سفر تھا دُور و دراز کا ، سو ہم آکے خود میں ٹھر رہے

یہاں رات دن کا جو رن پڑا تو گلہ یہ ہے کہ یہی ہوا
رہے شہر میں وہی معتبر جو اِدھر رہے نہ اُدھر رہے

ہیں عجیب سایے سے گام زن کہ فضاے شہر ہے پُرفتن
نہیں شام یہ رہ و رسم کی ، جو ہے گھر میں اپنے وہ گھر رہے

جون ایلیا

Leave a Comment

ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے

ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے
کہ ہٹ جاؤں میں اپنے درمیاں سے

یہاں جو ہے تنفس ہی میں گم ہے
پرندے اڑ رہے ہیں شاخ جاں سے

دریچہ باز ہے یادوں کا اور میں
ہوا سنتا ہوں پیڑوں کی زباں سے

زمانہ تھا وہ دل کی زندگی کا
تیری فرقت کے دن لاؤں کہاں سے

تھا اب تک معرکہ باہر کا درپیش
ابھی تو گھر بھی جانا ہے یہاں سے

فلاں سے تھی غزل بہتر فلاں کی
فلاں کے زخم اچھے تھےفلاں سے

خبر کیا دوں میں شہر رفتگاں کی
کوئی لوٹے بھی شہر رفتگاں سے

یہی انجام کیا تجھ کو ہوس تھا
کوئی پوچھے تو میر داستاں سے

جون ایلیا

Leave a Comment
%d bloggers like this: