Skip to content

Category: Gazals

this will contain gazals

“میرے ھمدم ، میرے دوست”

“میرے ھمدم ، میرے دوست”

گر مجھے اِس کا یقیں ھو ، میرے ھمدم ، میرے دوست
گر مجھے اِس کا یقیں ھو ، کہ تیرے دل کی تھکن
تیری آنکھوں کی اداسی ، تیرے سینے کی جلن
میری دلجوئی ، میرے پیار سے مِٹ جائے گی

گر میرا حرفِ تسلی وہ دوا ھو جس سے
جی اُٹھے پھر ، تیرا اُجڑا ھُوا بے نُور دِماغ
تیری پیشانی سے دُھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمار جوانی کو شفا ھو جائے

گر مجھے اِس کا یقیں ھو میرے ھمدم ، میرے دوست

روز و شب ، شام و سحر ، میں تجھےبہلاتا رھُوں
میں تجھے گیت سُناتا رھُوں ھلکے ، شیریں
آبشاروں کے ، بہاروں کے ، چمن زاروں کے گیت
آمدِ صُبح کے ، مہتاب کے ، سیاروں کے گیت

تجھ سے میں ، حُسن و محبت کی حکایات کہوں
کیسے مغرور حسیناؤں کے برفاب سے جِسم
گرم ھاتھوں کی حرارت سے پگھل جاتے ھیں
کیسے ایک چہرے کے ٹھہرے ھُوئے مانُوس نقُوش
دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ھیں

کس طرح عارضِ محبُوب کا شفاف بلور
یک بیک بادۂ احمّر سے دَھک جاتا ھے
کیسے گُلچیں کے لیے ، جُھکتی ھے خود شاخِ گلاب
کس طرح رات کا اِیوان مَہک جاتا ھے

یونہی گاتا رھُوں ، گاتا رھُوں تیری خاطر
گیت بُنتا رھُوں ، بیٹھا رھُوں تیری خاطر
یہ میرے گیت ، تیرے دُکھ کا مداوا ھی نہیں

نغمۂ جراح نہیں ، مونس و غم خوار سہی
گیت نشتر تو نہیں ، مرھمِ آزار سہی
تیرے آزار کا چارہ نہیں ، نشتر کے سِوا
اور یہ سَفاک مسیحا ، میرے قبضے میں نہیں

اِس جہاں کے کسی ذِی رُوح کے قبضے میں نہیں
ھاں مگر تیرے سِوا ، تیرے سِوا ، تیرے سِوا

“فیض احمّد فیضؔ”

Leave a Comment

یُوں جمالِ روئے جاناں شمعِ خلوت خانہ تھا

یُوں جمالِ روئے جاناں شمعِ خلوت خانہ تھا
دل ہمارا غرقِ آتش صورتِ پروانہ تھا

اک جمالِ بے تکیُف جلوہء جانانہ تھا
آنکھ جس جانب اٹھی ، ہر ذرّہ حیرت خانہ تھا

سوز سے خالی جگر تھا،غم سے دل بیگانہ تھا
عشق میں ہم نے وہ دیکھا جو کبھی دیکھا نہ تھا

جب حقیقت سے اٹھا پردہ تو یہ عُقدہ کُھلا
خواب تھا، وہمِ دوئی زخمِ خودی ،افسانہ تھا

وصل میں گنجائشِ اغیار اِتنی بھی نہ تھی
چشم و گوش و ہوش ہر اپنا وہاں بیگانہ تھا

لے کے ہم سے دین و دل ،عقل و خِرد بولا کوئی
یہ تو راہ و رسمِ اُلفت کا فقط بیعانا تھا

خانہء لیلیٰ میں تھے جنّت کے اسبابِ نِشاط
قیس کے حصّے میں تاحدِ نظر ویرانہ تھا

زندگی کے ہمسفر تھے نزع میں بھی دل کے پاس
بے کسی تھی ، یاس تھی ،ارمان تھے ، کیا کیا نہ تھا

وہ بھی کیا دن تھے کہ پیرِ میکدہ کے عِشق میں
یہ جبینِ شوق تھی، سنگِ درِ میخانہ تھا

فیصلہ دیتے ہوئے وہ بڑھ گئے حد سے نصؔیر
میں سزاوارِ سزا تو تھا ، مگر اتنا نہ تھا

پیر سید نصیر الدین نصیر

Leave a Comment

چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا

چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا
جمال یار نے منھ اس کا خوب لال کیا

فلک نے آہ تری رہ میں ہم کو پیدا کر
برنگ سبزۂ نورستہ پائمال کیا

رہی تھی دم کی کشاکش گلے میں کچھ باقی
سو اس کی تیغ نے جھگڑا ہی انفصال کیا

مری اب آنکھیں نہیں کھلتیں ضعف سے ہمدم
نہ کہہ کہ نیند میں ہے تو یہ کیا خیال کیا

بہار رفتہ پھر آئی ترے تماشے کو
چمن کو یمن قدم نے ترے نہال کیا

جواب نامہ سیاہی کا اپنی ہے وہ زلف
کسو نے حشر کو ہم سے اگر سوال کیا

لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے
جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا

میرتقی میر

Leave a Comment

خوبصورتی کی حد ہے نہ حساب ہے

خوبصورتی کی حد ہے نہ حساب ہے
تُو گلاب ، تُو گلاب ، تُو گلاب ہے

چار سو کروڑ تتلیوں میں تُو مرا
اِنتخاب ، اِنتخاب ، اِنتخاب ہے

چودہویں کا چاند ، نصفِ دِن کا آفتاب
چندے آفتاب ، چندے ماہتاب ہے

خوشبو ، خوش بدن کی جگنو مست کر گئی
کہہ رہے ہیں یہ گلاب ، لاجواب ہے

ایک پل کو دیکھ لے ہمیں بھی پیار سے
یہ ثواب دَر ثواب دَر ثواب ہے

خواب میں بھی اُن کے آگے ایک نہ چلی
بولے جاگ جاؤ یہ ہمارا خواب ہے

دُھوپ میں جو مینہ برس پڑے تو جانئے
اَبر زُلفِ یار دیکھ آب آب ہے

عشق نے جہاں پہ لکھ دِیا تمام شد
حُسن کی کتاب کا وُہ پہلا باب ہے

حُسن کی نگاہ میں حیا کے سرخ پھول
آج کل کے دور میں یہ اِنقلاب ہے

قیس اُن نگاہوں میں چمک سی پیار کی
اِک نئی کتاب کا یہ اِنتساب ہے

شہزاد قیس

Leave a Comment

دل کو اک بات کہہ سنانی ہے

دل کو اک بات کہہ سنانی ہے
ساری دنیا فقط کہانی ہے

تو میری جان داستان تھا کبھی
اب ترا نام داستانی ہے

سہہ چکے زخمِ التفات تیرا
اب تری یاد آزمانی ہے

اک طرف دل ہے، اک طرف دنیا
یہ کہانی بہت پرانی ہے

تھا سوال ان اداس آنکھوں کا
زندگی کیا نہیں گنوانی ہے

کیا بتاؤں میں اپنا پاسِ انا
میں نے ہنس ہنس کے ہار مانی ہے

ہوس انگیز ہے بدن میرا
ہائے میری ہوس کہ فانی ہے

روز مرہ ہے زندگی کا عجیب
رات ہے اور نیند آنی ہے

زندگی کس طرح گزاروں میں
مجھ کو روزی نہیں کمانی ہے

جون ایلیا

Leave a Comment

ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے

ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے

کہیں ہے عید کی شادی کہیں ماتم ہے مقتل میں
کوئی قاتل سے ملتا ہے کوئی بسمل سے ملتا ہے

پس پردہ بھی لیلیٰ ہاتھ رکھ لیتی ہے آنکھوں پر
غبار ناتوان قیس جب محمل سے ملتا ہے

بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی
ملاقاتی ترا گویا بھری محفل سے ملتا ہے

مجھے آتا ہے کیا کیا رشک وقت ذبح اس سے بھی
گلا جس دم لپٹ کر خنجر قاتل سے ملتا ہے

بظاہر با ادب یوں حضرت ناصح سے ملتا ہوں
مرید خاص جیسے مرشد کامل سے ملتا ہے

مثال گنج قاروں اہل حاجت سے نہیں چھپتا
جو ہوتا ہے سخی خود ڈھونڈ کر سائل سے ملتا ہے

جواب اس بات کا اس شوخ کو کیا دے سکے کوئی
جو دل لے کر کہے کم بخت تو کس دل سے ملتا ہے

چھپائے سے کوئی چھپتی ہے اپنے دل کی بیتابی
کہ ہر تار نفس اپنا رگ بسمل سے ملتا ہے

عدم کی جو حقیقت ہے وہ پوچھو اہل ہستی سے
مسافر کو تو منزل کا پتا منزل سے ملتا ہے

غضب ہے داغؔ کے دل سے تمہارا دل نہیں ملتا
تمہارا چاند سا چہرہ مہ کامل سے ملتا ہے

Leave a Comment

اک دن زباں سکوت کی، پوری بناؤں گا

اک دن زباں سکوت کی، پوری بناؤں گا
میں گفتگو کو غیر ضروری بناؤں گا

تصویر میں بناؤں گا دونوں کے ہاتھ اور
دونوں میں ایک ہاتھ کی دوری بناؤں گا

مدت سمیت جملہ ضوابط ہوں طے شدہ
یعنی تعلقات، عبوری بناؤں گا

تجھ کو خبر نہ ہو گی کہ میں آس پاس ہوں
اس بار حاضری کو حضوری بناؤں گا

رنگوں پہ اختیار اگر مل سکا کبھی
تیری سیاہ پتلیاں، بھوری بناؤں گا

جاری ہے اپنی ذات پہ تحقیق آج کل
میں بھی خلا پہ ایک تھیوری بناؤں گا

میں چاہ کر وہ شکل مکمل نہ کر سکا
اس کو بھی لگ رہا تھا ادھوری بناؤں گا

عمیرؔ نجمی

Leave a Comment

جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ

جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ

مل بھی لیتے ہیں گلے سے اپنے مطلب کے لئے
آ پڑے مشکل تو نظریں بھی چرا لیتے ہیں لوگ

خود فریبی کی انہیں عادت سی شاید پڑ گئی
ہر نئے رہزن کو سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ

ہے بجا ان کی شکائت لیکن اس کا کیا علاج
بجلیاں خود اپنے گلشن پر گرا لیتے ہیں لوگ

ہو خوشی بھی ان کو حاصل یہ ضروری تو نہیں
غم چھپانے کے لئے بھی مسکرا لیتے ہیں لوگ

اس قدر نفرت ہے ان کو تیرگی کے نام سے
روزِ روشن میں بھی اب شمعیں جلا لیتے ہیں لوگ

یہ بھی دیکھا ہے کہ جب آ جائے غیرت کا مقام
اپنی سولی اپنے کاندھے پر اٹھا لیتے ہیں لوگ

روشنی ہے ان کا ایماں روک مت ان کو قتیل
دل جلاتے ہیں یہ اپنا تیرا کیا لیتے ہیں لوگ۔

قتیل شفائی

Leave a Comment

ﮨﻢ ﻓﻘﻴﺮﻭﮞ کی ﺳﺐ کے ﺗﺌﻴﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﮨﻢ ﻓﻘﻴﺮﻭﮞ کی ﺳﺐ کے ﺗﺌﻴﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ
ﻣﻌﺬﺭﺕ ! ﺑﺲ ﺩﻡِ ﻭﺍﭘﺴﻴﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﮨﻢ سفر ! ﭘﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﻠﺘﮯ ﻧﮩﻴﮟ
ﮨﻢ ﺳﻔﺮ ! ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﺮ لوں ﻳﮩﻴﮟ ،ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺟﺲ کی ﻗﻴﻤﺖ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺁﭖ ﺁﮰ ﮨﻴﮟ
ﻭﮦ ﮐﻮئی ﺍﻭﺭ ہے! ﻣﻴﮟ ﻧﮩﻴﮟ ! ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﮨﻢ ﺍﻧﺎ ﺯﺍﺩﻭﮞ کی ﺗﺮﺑﻴﺖ ﺍﻭﺭ ہے
ﮨﻢ ﺟﮭﮑﺎﺗﮯ ﻧﮩﻴﮟ ﮨﻴﮟ ﺟﺒﻴﮟ ،ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺟﯽ ﻣﻴﮟ ﺁﺗﺎ ھے ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭﮞ ﺍﻳﮏ ﺷﺐ
ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﻴﮟ ﻟﮑﮫ ﺩﻭﮞ ﮐﮩﻴﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﮨﻢ ﻧﮯ ﺭﮐﻨﺎ ﻧﮩﻴﮟ ﺭﮐﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮ ! ﻣﮕﺮ
ﻋﺎﻓﻴﺖ ! ﺗﮩﻨﻴﺖ ! ﺁﻓﺮﻳﮟ ! ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﻣﻴﮟ ﺗﺮﮮ ﺑﺎﺏ ﻣﻴﮟ کچھ ﻧﮩﻴﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺎ
ﻣﻌﺬﺭﺕ ! ﺍﮮ ﺩﻝِ ﺧﻮش ﻳﻘﻴﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﮨﻢ ﮐﮩﻴﮟ کے ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻧﮩﻴﮟ ﺭﮦ ﺳﮑﮯ
ﺍﮮ ﻓﻠﮏ ﺍﻋﺘﺰﺍﺭ ! ﺍﮮ ﺯﻣﻴﮟ ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﻃﺎﻟﺐِ ﺧﻮﺩ ﻓﺮﻭﺷﯽ کے ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻣﻴﮟ
ﻣﻴﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﻟﮑﮫ ﺩﻭ ،ﻧﮩﻴﮟ ! ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺩﻋﻮﺗﻴﮟ ﺩﻭ ﮨﻴﮟ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﻳﮏ ہے
ﺍﮨﻞِ ﺩﻝ ﺷﮑﺮﻳﮧ ! ﺍﮨﻞِ ﺩﻳﮟ ﻣﻌﺬﺭﺕ

ﺍﻓﺘﺨﺎﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﺲ ﺍﮎ ﺩﻋﺎﮰ ﺍﺑﺪ
ﺍﻓﺘﺨﺎﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﮎ ﺁﺧﺮﻳﮟ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ

Leave a Comment

غـــــــــمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عـــــام تک نہ پہنچے

غـــــــــمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عـــــام تک نہ پہنچے
مُجھے خَـوف ہے یہ تہمت مِــــــرے نام تک نہ پہنچے

میں نظـــــر سے پی رہا تھا تو یہ دِل نے بَد دُعـــــا دی
تیرا ہاتھ زِنــــدگی بھـــر کبھی جــــــام تک نہ پہنچے

وہ نَوائے مُضمحل کیا نہ ہو جس میں دِل کی دَھـڑکن
وہ صَـــــــــدائے اہلِ دل کیا جو عــــوام تک نہ پہنچے

مِـــــرے طــــائرِ نَفَس کــــــو نہیں باغباں سے رَنجِش
مِلے گھـــــــــر میں آب و دانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے

نئی صبح پر نظــــــــــــــــــر ہے، مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحـــــــر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے

یہ ادائے بے نیـــــازی تجھے بے وَفـــــــــــــا مُبــــــارک
مگـــر ایسی بے رُخی کیا کہ سَـــــــــلام تک نہ پہنچے

جو نقابِ رُخ اُٹھـــــا دی تو یہ قیــــــــــد بھی لگا دی
اُٹھے ہر نگاہ لیکن کـــــــــــــــــــوئی بام تک نہ پہنچے

انہیں اپنے دِل کی خبــریں، مِرے دِل سے مِل رہی ہیں
میں جو اُن سے رُوٹھ جــــــاؤں تو پَیام تک نہ پہنچے

وہی اِک خموش نغمــہ، ہے شکیل جــــــــــــــانِ ہستی
جـــــــــو زبان پـر نـہ آئے، جـــــــو کلام تک نہ پہنچے

Leave a Comment
%d bloggers like this: