آنکھوں کا رنگ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا
کچھ دن تو میرا عکس رہا آئینے پہ نقش
پھر یوں ہوا کہ خود میرا چہرا بدل گیا
حیرت سے سارے لفظ اسے دیکھتے رہے
باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا
قدموں تلے جو ریت بچھی تھی وہ چل پڑی
اس نے چھڑایا ہاتھ تو صحرا بدل گیا
کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی
جاتے ہی ایک شخص کے کیا کیا بدل گیا
امجد اسلام امجد
Be First to Comment