دستِ شب پر دِکھائی کیا دیں گی
سلوٹیں روشنی میں اُبھریں گی
گھر کی دیواریں میرے جانے پر
اپنی تنہائیوں کو سوچیں گی
اُنگلیوں کو تراش دوُں، پھر بھی
عادتاً اُس کا نام لکھیں گی
رنگ و بوُ سے کہیں پناہ نہیں
خواہشیں بھی کہاں اَماں دیں گی
ایک خوشبوُ سے بچ بھی جاؤں اگر
دوُسری نکہتیں جکڑ لیں گی
خواب میں تِتلیاں پکڑنے کو
نیندیں بچوں کی طرح دوڑیں گی
کِھڑکیوں پر دبیز پردے ہوں
بارشیں پھر بھی دستکیں دیں گی
پروین شاکر
Be First to Comment