مُشک پس ِ رخسار بھی اچھی لگتی ہے
زلف کی یہ مہکار بھی اچھی لگتی ہے
خوشبو دیتے پھول بھی دل کو بھاتے ہیں
پھولوں کی سردار بھی اچھی لگتی ہے
ہاتھ پہ رکھے ہاتھ وہ چاہے بیٹھی ہو
گھر میں وہ بےکار بھی اچھی لگتی ہے
اُس کے ہر اک شر سے خیر نکالا ہے
وہ آفت آثار بھی اچھی لگتی ہے
اُس کے ہر انکار میں ہے اقرار چھپا
کرتی وہ انکار بھی اچھی لگتی ہے
‘جان’ مجھے اب چاہے وہ سو بار کہے
دل کو یہ تکرار بھی اچھی لگتی ہے
منظر کی ویرانی کے اس موسم میں
خالی اک دیوار بھی اچھی لگتی ہے
مُشک پس ِ رخسار بھی اچھی لگتی ہے
Published inUncategorized
Be First to Comment