یہ تُو جو پوچھتا پھرتا ہے ، بے دِلی ہے کیا؟
تو پہلے یہ تو پتہ کر کہ دِل لگی ہے کیا
ہم اہلِ دِل جو محبت کا ساتھ دیتے ہیں
ہماری خوبی تمھیں عیب لگ رہی ہے کیا؟
قصور وار نہیں ہیں دِیے بُجھاتے لوگ
اِنھیں خبر ہی نہیں ہے کہ روشنی ہے کیا؟
بڑے غرور سے لوگوں سے بات کرتے ہو
تمھارے ہاتھ میں دولت نئی نئی ہے کیا؟
ہے رخ پہ گرد اور آئینہ صاف کرتے ہیں
اب اس سے بڑھ کے بتاؤ کہ “سادگی ہے کیا؟
گزشتہ سات برس سے ہوں لاپتہ خود سے
میری کہیں سے کوئی بھی خبر مِلی ہے کیا؟
میں ایک نظم لِکھوں گا تمھارے ہونٹوں پر
یہ قارئین بھی سمجھیں کہ “تازگی ہے کیا”
تیری نظر میں جو دنیا وسیع ہے ساحر
یہ کائنات تیری سوچ سے بڑی ہے کیا؟
Be First to Comment