Skip to content

اور اس کے بعد ہمیشہ مُجھے عدو سمجھے

اور اس کے بعد ہمیشہ مُجھے عدو سمجھے
مری مراد نہیں دوست ہو بہو سمجھے

اگرچہ مادری میری زباں ہے پنجابی
پہ شعر اردو میں کہتا ہوں تاکہ تُو سمجھے

نہ سنگِ لفظ گرائے سکوت دریا میں
کوئی نہیں جو خموشی کی آبرو سمجھے

زبانِ حال سے کہتے رہے حذر لیکن
تھرکتے جسم نہ اعضاء کی گفتگو سمجھے

مجھ ایسے مست کا غوغا جسے کھٹکتا ہے
وہ میرے ساتھ رہے، لطفِ ہا و ہو سمجھے

کرے تلاش زمینِ گماں پہ اس کا عکس
وہ روبرو نہ رہے، آنکھ روبرو سمجھے

مرے خیال کو ندرت خدا نے بخشی ہے
تو کیسے شعر مرے کوئی بے وضو سمجھے

Published inUncategorized

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: