ہر مرحلہ شوق سے لہر ا کے گزر جا
آثار تلاطم ہوں تو بل کھا کے گزر جا
بہکی ہوئی مخمور گھٹاؤں کی صدا سن
فردوس کی تدبیر کو بہلا کے گزر جا
مایوس ہیں احساس کی الجھی ہوئی راہیں
پائل دل مجبور کی چھنکا کے گزر جا
یزداں و اہرمن کی حکایات کے بدلے
انساں کی روایات کو دہرا کے گزر جا
کہتی ہیں تجھے میکدہ وقت کی راہیں
بگڑی ہوئی تقدیر کو سمجھا کے گذر جا
بجھتی ہی نہیں تشنگی دل کسی صورت
اے ابر کرم آگ ہی برسا کے گزرجا
کانٹے جو لگیں ہاتھ تو کچھ غم نہیں ساغر ؔ
کلیوں کو ہر ایک گام پہ بکھرا کے گزر جا
ساغر صدیقی
Be First to Comment