تیرے ابرووںکی حسیںکماں ، نظر آ رہی ہے فلک نشاں
نہ کرشمہ قوسِ قزح سے کم ، نہ کشش ہلال کے خم سے کم
نہ ستا مجھے ، نہ رلا مجھے ، نہیں اور تابِ جفا مجھے
کہ مری متاعِ شکیب ہے ، تری کائناتِ ستم سے کم
یہ کرم ہے کم سرِ انجمن کہ پلائی اس نے مئے سخن
مجھے پاس اپنے بلا لیا ، رہی بات میری تو کم سے کم
نہیں جس میں تیری تجلیاں ، اسی جانچتی ہے نظر کہاں
تیرے نور کا نہ ظہور ہو تو وجود بھی ہے عدم سے کم
کبھی انعکاسِ جمال ہے ، کبھی عینِ شے کی مثال ہے
نہیں میرے دل کا معاملہ ، کسی آئینے کے بھرم سے کم
مہ و آفتاب و نجوم سب ، ہیں ضیا فگن ، نہیں اس میں شک
ہے مسلم ان کی چمک دمک ، مگر اُن کے نقشِ قدم سے کم
یہی آرزو ، یہی مدعا ، کبھی وقت ہو تو سنیں ذرا
مری داستانِ حیاتِ غم جو لکھی گئی ہے قلم سے کم
یہ نصیر دفترِ راز ہے ، یہ غبار راہِ نیاز ہے
کریںاس پہ اہل جہاں یقیں ، نہیں اِس کا قول ، قسم سے کم
Be First to Comment