زنِ حسین تھی اور پھول چُن کے لاتی تھی
میں شعر کہتا تھا وہ داستان سناتی تھی
اسے پتہ تھا میں دنیا نہیں محبت ہوں
وہ میرے سامنے کچھ بھی نہیں چھپاتی تھی
منافقوں کو میرا نام زہر لگتا تھا
وہ جان بوجھ کے غصہ انھیں دلاتی تھی
عرب لہو تھا رگوں میں, بدن سنہری تھا
وہ مسکراتی نہیں تھی دئیے جلاتی تھی
اسے کسی سے محبت تھی اور وہ میں نہیں تھا
یہ بات مجھ سے زیادہ اسے رلاتی تھی
یہ پھول دیکھ رہے ہو یہ اس کا لہجہ تھا
یہ جھیل دیکھ رہے ہو یہاں وہ آتی تھی
میں کچھ بتا نہیں سکتا وہ میری کیا تھی علی
کہ اس کو دیکھ کے بس اپنی یاد آتی تھی
ہر ایک روپ انوکھا تھا اُس کی حیرت کا
مِرے لئے وہ زمانے بدل کے آتی تھی
میں اُس کے بعد کبھی ٹھیک سے نہیں جاگا
وہ مجھ کو خواب نہیں، نیند سے جگاتی تھی
“علی یہ لوگ تمہیں جانتے نہیں ہیں ابھی”
گلے لگا کے مِرا حوصلہ بڑھاتی تھی
” تم اُس سے دُور رہو” لوگ اُس سے کہتےتھے
” وہ میرا سچ ہے ” بہت چیخ کر بتاتی تھی
Be First to Comment