بےیقینی، بےثباتی، بےکرانی ،کا سفر
ہر نفس کا منتظر ہے رائگانی کا سفر
ریگزارِخواب پر ہیں ہجرتوں کے قافلے
چار سو پھیلا ہوا ہے بے نشانی کا سفر
بے تحاشا راستے ،بے انتہا اوارگی
پوچھ مت کیسا رہا بےسائبانی کا سفر
کعبہ ہو ، یا بت کدہ ہو ،ہم نے پایا جابجا
بے نیازی، خودفریبی، لن ترانی کا سفر
کمسنوں کے دامنوں پر حسن کی نوخیزیاں
دیکھ یوں تشکیل پاتا ہے جوانی کا سفر
جسم ہائے ٹوٹتا ہے اے ملائک تخلیہ
جھیل کر ہم آ رہے ہیں زندگانی کا سفر
Be First to Comment