تِرے خواب بھی ہُوں گنوارہا ، ترے رنگ بھی ہیں بکھررہے
یہی روز و شب ہیں تو جانِ جاں یہ وظیفہ خوار تو مررہے
وہی روزگار کی محنتیں کہ نہیں ہے فرصتِ یک نَفَس
یہی دن تھے کام کے اور ہم کوئی کام بھی نہیں کررہے
ہمیں شکوا تیری ادا سے ہے تری چشمِ حال فزا سے ہے
کہ دریچہ آگے بھی ہم ترے یونہی بے نشاطِ ہُنر رہے
مرا دل ہے خوں کہ ہوا یہ کیا ترے شہرِ ماجرا خیز کو
نہ وہ ہوش ہے نہ خروش ہے ، نہ وہ سنگ ہیں نہ وہ سر رہے
ہے مقابلے کی حریف کو بہت آرزو مگر اس طرح
کہ ہمارے ہاتھ میں دَم کو بھی کوئی تیغ ہو ، نہ سپر رہے
ّعجیب ایک ہم نے ہُنر کیا ، وہ ہُنر بطورِ دِگر کیا
کہ سفر تھا دُور و دراز کا ، سو ہم آکے خود میں ٹھر رہے
یہاں رات دن کا جو رن پڑا تو گلہ یہ ہے کہ یہی ہوا
رہے شہر میں وہی معتبر جو اِدھر رہے نہ اُدھر رہے
ہیں عجیب سایے سے گام زن کہ فضاے شہر ہے پُرفتن
نہیں شام یہ رہ و رسم کی ، جو ہے گھر میں اپنے وہ گھر رہے
جون ایلیا
Be First to Comment