ایک تاریخِ مقرر پہ تُو ہر ماہ مِلے
جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ مِلے.
رنگ اکھڑ جاۓ تو ظاہر ہو پلستر کی نمی
قہقہہ کھود کے دیکھو تو تمہیں آہ ملے
جمع تھے رات میرے گھر ترے ٹھکراۓ ہوۓ
ایک درگاہ پہ سب راندۂ درگاہ ملے
ایک اداسی کے جزیرے پہ ہوں اشکوں میں گِھرا
میں نکل جاؤں اگر خشک گزرگاہ ملے
گھر پہنچنے کی نہ جلدی،نہ تمنا ہے کوئی
جس نے ملنا ہو مجھے آئے سرِ راہ ملے
(عمیر نجمی)
Be First to Comment