زندگی مجھ سے
صلح چاہتی ہے
زخموں کی اپنے
دوا چاہتی ہے
گرہوں کی ماری
یہ دودهوں جلی
کمبخت مجھ سے
نکاح چاہتی ہے
چنتا سے خائف
یہ الہڑ ندیدہ
حصے کی اپنے
ردا چاہتی ہے
پیری کی دشمن
یہ نو عمر لونڈی
جوانی کیا جی بهر
نشہ چاہتی ہے
الفت کی موجب
یہ دل کش حسینہ
ہر سن سے نورس
ادا چاہتی ہے
تنفس کی دیوی
یہ سینوں کی رضیہ
ان آتش کدوں سے
ضیا چاہتی ہے
بدن سے سفیر_بدن
بن کے اٹهے
دہر میں یہ ایسا
دیا چاہتی ہے
یہ حوا پہ اترے
تو سمجهو قیامت
سبهو چشم اس سے
پناہ چاہتی ہے
تیرے روبرو اس
کے نوٹنکی ناٹک
شفا بخش ہو تم
شفا چاہتی ہے
یہ سوچوں کے کنبہ
میں پہلوٹهی بهاوج
دلوں کے ٹهکانے
تباہ چاہتی ہے
یہ زرتار_آنچل یہ
لٹهے کی خلوت
پهولوں کی خود پہ
قبا چاہتی ہے
رزب یہ حرافہ یہ
تیلی کی رسیا
بشر سے لحد تک
وفا چاہتی ہے
Be First to Comment