Skip to content

تمہارے نام، تمہارے نشاں سے بےسروکار

تمہارے نام، تمہارے نشاں سے بےسروکار
تمہاری یاد کے موسم گُزرتے جاتے ہیں
بس ایک منظرِ بےہجر و وصل ہے، جس میں
ہم اپنے آپ ہی کچھ رنگ بھرتے جاتے ہیں

نہ وہ نشاطِ تصوّر کہ لو تم آ ہی گئے
نہ زخمِ دل کی ہے سوزش کوئی، جو سہنی ہو
نہ کوئی وعدہ و پیماں کی شام ہے، نہ سحر
نہ شوق کی ہے کوئی داستاں، جو کہنی ہو

نہیں جو محمل لیلائے آرزو سرِ راہ
تو اب فضا میں فضا کے سِوا کچھ اور نہیں
نہیں جو موجِ صبا میں کوئی شمیمِ پیام
تو اب صبا میں صبا کے سِوا کچھ اور نہیں

اُتار دے جو کنارے پہ ہم کو کَشتیٔ‌‌ وہم
تو گَرد و پَیش کو گرداب ہی سمجھتے ہیں
تمہارے رنگ مہکتے ہیں خواب میں جب بھی
تو خواب میں بھی انہیں خواب ہی سمجھتے ہیں

نہ کوئی زخم، نہ مرہم کہ زندگی اپنی
گُزر رہی ہے ہر احساس کو گنوانے میں
مگر یہ زخم، یہ مرہم بھی کم نہیں شاید
کہ ہم ہیں ایک زمیں پر اور اِک زمانے میں

۔جون ایلیاء

Published inGazals

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: