دیار غیر میں کیسے تجھے سدا دیتے
تو مل بھی جاتا تو آخر تجھے گنوا دیتے
تمہی نے نہ سنایا اپنا دکھ ورنہ
دعا وہ دیتے کہ آسماں ہلا دیتے
وہ تیرا غم تھا کہ تاثیر میرے لہجے کی
کہ جسے حال سناتے اُسے رولا دیتے
ہمیں یہ زعم تھا کہ اب کہ وہ پکاریں گے
انہیں یہ ضد تھی کہ ہر بار ہم صدا دیتے
تمھیں بھلانا اول تو دسترس میں نہیں
گر اختیار میں ہوتا تو کیا بھلا دیتے؟
سماعتوں کو میں تاعمر کوستا رہا وصی
وہ کچھ نہ کہتے مگر لب تو ہلا دیتے
وصی شاہ
Be First to Comment