Skip to content

Month: December 2019

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے​

راحت اندوری

Leave a Comment

ﻣِﻨﺘﯿﮟ ﮬﯿﮟ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﯽ ﺗﯿﺮﮮ

ﻣِﻨﺘﯿﮟ ﮬﯿﮟ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﯽ ﺗﯿﺮﮮ
ﺧُﻮﺏ ﮔﺰﺭﯼ ﺗﯿﺮﮮ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍِﮎ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮ ﮐﺮﺩﯼ
ﺗﯿﺮﮮ ﻧﺎﺩﯾﺪﮦ ﺧﺪﻭﺧﺎﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﺟﻮﻥ ﺍﯾﻠﯿﺎ

Leave a Comment

ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریبان میں ہے

ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریبان میں ہے
کیا خبر تھی کہ بہار اس کے بھی ارمان میں ہے

ایک ضرب اور بھی اے زندگیِ تیشہ بدست
سانس لینے کی سکت اب بھی مری جان میں ہے

میں تجھے کھو کے بھی زندہ ہوں یہ دیکھا تو نے
کس قدر حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں ہے

فاصلے قرب کے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
میں ترے شہر سے دُور اور تُو مرے دھیان میں ہے

سرِ دیوار فروزاں ہے ابھی ایک چراغ
اے نسیمِ سحری! کچھ ترے امکان میں ہے

دل دھڑکنے کی صدا آتی ہے گاہے گاہے
جیسے اب بھی تری آواز مرے کان میں ہے

خلقتِ شہر کے ہر ظلم کے با وصف فراز
ہائے وہ ہاتھ کہ اپنے ہی گریبان میں ہے

احمد فراز

Leave a Comment

مَیں کیوں نہ ترکِ تعلق کی ابتدا کرتا

مَیں کیوں نہ ترکِ تعلق کی ابتدا کرتا
وہ دُور دیس کا باسی تھا کیا وفا کرتا؟

وہ میرے ضبط کا اندازہ کرنے آیا تھا
مَیں ہنس کے زخم نہ کھاتا تو اور کیا کرتا؟

ہزار آئینہ خانوں میں بھی مَیں پا نہ سکا
وہ آئینہ جو مجھے خود سے آشنا کرتا

غمِ جہاں کی محبت لُبھا رہی تھی مجھے
مَیں کس طرح تیری چاہت پہ آسرا کرتا؟

اگر زبان نہ کٹتی تو شہر میں “محسن”
مَیں پتھروں کو بھی اِک روز ہمنوا کرتا
محسن نقوی

Leave a Comment

آدمی آدمی سے ملتا ہے

آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے

آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے

سلسلہ فتنۂ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے

مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے

کاروبار جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے

روح کو بھی مزا محبت کا
دل کی ہم سائیگی سے ملتا ہے

جگر مراد آبادی

Leave a Comment

‏کون اس دیس میں دے گا ہمیں انصاف کی بھیک

‏کون اس دیس میں دے گا ہمیں انصاف کی بھیک
جس میں خونخوار درندوں کی شہنشاہی ہے
جس میں غلے کے نگہباں ہیں وہ گیدڑ جن سے
قحط و افلاس کے بھوتوں نے اماں چاہی ہے

قتیل شفائی

Leave a Comment
%d bloggers like this: