Skip to content

Month: November 2019

وہ اور تسلی مجھے دیں

وہ اور تسلی مجھے دیں انکی بلا دے
جاتے ہوئے فرما تو گئے صبر خدا دے

ہر بات کا اللہ نے بخشا ہے سلیقہ
لڑنا بھی مزہ دے تیرا ملنا بھی مزہ دے

اس طرح بھی غش سے کہیں ہوتا ہے افاقہ
یا زلف سنگھا یا مجھے دامن کی ہوا دے

دم چڑھنے لگا غصے کے تیور جو بنائے
نازک ہو جو اتنا مجھے خاک سزا دے

کمبخت نے سب کھول دیئے راز محبت
یہ کس نے کہا تھا کہ بیخود کو پلادے !

Leave a Comment

کسی کو پورا میسر ہے تو

کسی کو پورا میسر ہے تو
!کوئ تیرے لمس کو ترسا ہے

کیا یہ بھی رائیگانی ہوئ؟
!اشک آج دل سے چھلکا ہے

چادر چڑھائ ہے کسی نے مزار پہ
!میرے گاوں میں مینہ برسا ہے

اک تصویر کے سوا بٹوے میں
!باقی سب اداسیوں کی برکھا ہے

سوچ رہا ہوں بے وفا لکھوں تجھے
!لیکن تیرے لیے یہ لفظ بھی ہلکا ہے

Leave a Comment

تصوف

پکھ وِچ ، پردہ داری ، کاہدی ؟
چادر ، چار دِیواری ، کاہدی ؟

میرے گھر دِیاں کَنداں ای کوئی نئیں
تے بُوہا کاہدا ؟ باری کاہدی ؟

مشکل ویلے جے کم ناں آوے
اوہ کاہدا یار اے ؟ تے یاری کاہدی ؟

ہر ویلے اے مینوں یار دا نشہ
لوکی پُچھن تینوں اے خُماری کاہدی ؟

اوہدے نین نے میرے درداں دا حل
جے اوہ ویکھ لوے ، تے بیماری کاہدی ؟

Leave a Comment

رنگوں پہ اختیار اگر مل سکا کبھی

رنگوں پہ اختیار اگر مل سکا کبھی
تیری سیاہ پتلیاں، بھوری بناؤں گا

اک دن زباں سکوت کی، پوری بناؤں گا
میں گفتگو کو غیر ضروری بناؤں گا

تصویر میں بناؤں گا دونوں کے ہاتھ اور
دونوں میں ایک ہاتھ کی دوری بناؤں گا

مدت سمیت جملہ ضوابط ہوں طے شدہ
یعنی تعلقات، عبوری بناؤں گا

تجھ کو خبر نہ ہو گی کہ میں آس پاس ہوں
اس بار حاضری کو حضوری بناؤں گا

رنگوں پہ اختیار اگر مل سکا کبھی
تیری سیاہ پتلیاں، بھوری بناؤں گا

جاری ہے اپنی ذات پہ تحقیق آج کل
میں بھی خلا پہ ایک تھیوری بناؤں گا

میں چاہ کر وہ شکل مکمل نہ کر سکا
اس کو بھی لگ رہا تھا ادھوری بناؤں گا

عمیر نجمی

Leave a Comment

تو رہ نوردِ شوق ہے

تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تندو تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول

کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز گرمی ٔ محفل نہ کر قبول

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول

باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہ ء حق و باطل نہ کر قبول
علامہ اقبال۔

Leave a Comment

کتنے عیش سے رہتے ہوں گے

کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے
جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے

شام ہوئے خوش باش یہاں کے میرے پاس آ جاتے ہیں
میرے بجھنے کا نظارہ کرنے آ جاتے ہوں گے

وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھا
آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آتے ہوں گے

اس کی یاد کی باد صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگا
یوں ہی میرے بال ہیں بکھرے اور بکھر جاتے ہوں گے

یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے

میرا سانس اکھڑتے ہی سب بین کریں گے روئیں گے
یعنی میرے بعد بھی یعنی سانس لیے جاتے ہوں گے

جون ایلیا

Leave a Comment

‏‎جو تُو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا

‏‎جو تُو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا
‏‎ہمارا کوئی تو پُرسانِ حال رہ جاتا

‏‎بچھڑتے وقت ڈھلکتا نہ گر ان آنکھوں سے
‏‎اُس ایک اشک کا _ کیا کیا ملال رہ جاتا
‏‎

جمال آحسانی

Leave a Comment
%d bloggers like this: