کون ہوں مجھ کو بتایا جائے
گر نہ مانوں تو منایا جائے
روز یاں سب کو ہے تازہ شکوہ
روز کس کس کو منایا جائے
حل نہیں مانا مرا ہے ممکن
مسئلہ پھر بھی اٹھایا جائے
مجھ کو حالات نہ سونے دیں گے
خواب دے کر ہی سلایا جائے
کب مرے گھر ہے گزر سورج کا
دیا کس وقت بجھایا جائے
اب محبت تو ہضم ہوتی نہیں
جامِ نفرت ہی پلایا جائے
سبھی پتھر ہیں مرے جانچے ہوئے
ان سے مجھ کو نہ ڈرایا جائے
مجھ سے ملنے کی تمنا ہو جسے
ایسا کوئی تو ملایا جائے
یوں نہ لوٹوں گا کہانی میں اب
پہلے انجام سنایا جائے
عشق دلدل کی طرح ہوتا ہے
اس میں کیا رستہ بنایا جائے
کیا راہوں نے ہے ایکا ابرک
راہ سے مجھ کو ہٹایا جائے
…… اتباف ابرک
Be First to Comment