Skip to content

نئے چراغ بناتے ہوئے نہیں ڈرتا

نئے چراغ بناتے ہوئے نہیں ڈرتا
یہ عشق چاک گھماتے ہوئے نہیں ڈرتا

مرے وسیلے سے جتنے بھی پیڑ روئے ہیں
انہیں میں ہِیر سناتے ہوئے نہیں ڈرتا

حضور! آپ ہی روکیں کہ میں تو پاگل ہوں
کسی سے ہاتھ ملاتے ہوئے نہیں ڈرتا

ہزار بار بتایا کہ بد شگونی ہے
مگر وہ ہونٹ چباتے ہوئے نہیں ڈرتا

میں پیٹ کاٹ کے زندہ ہوں اور ڈرتا ہوں
تُو فن کو بیچ کے کھاتے ہوئے نہیں ڈرتا؟

عجیب شوقِ طبیعت ہے افتخار فلکؔ
کوئی بھی آنکھ لڑاتے ہوئے نہیں ڈرتا

Published inGazalsSad PoetryUncategorized

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: