غموں کی دُھول میں شاید بکھر گیا ہو گا
بچھڑ کے مجھ سے وہ جانے کدھر گیا ہو گا
وہاں وہاں مری خشبو بکھر گئی ہو گی
جہاں جہاں بھی مرا ہم سفر گیا ہو گا
میں اُس کے ہجر میں کتنا اُداس رہتا ہوں
یہ سن کے اُس کا بھی چہرہ اُتر گیا ہو گا
یہ کس نے خواب میں آکر جگا دیا مجھ کو
مجھے یقیں ہے وہ سوتے میں ڈر گیا ہو گا
خوشی کی دھوپ نے سنولا دیا تھا رنگ اُس کا
اُداس ہو کے وہ کتنا نکھر گیا ہو گا
نکل پڑا تھا سرِ شام چاند کی صورت
مری تلاش میں وہ تا سحر گیا ہو گا
جو مرے دل کو قفس میں بدل گیا جرارؔ
وہ اپنے گھر کو بھی ویران کر گیا ہو گا
Be First to Comment