Skip to content

عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں

عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں
رات بستر پہ میں سوتا نہیں مر جاتا ہوں

اکثر اوقات بھرے شہر کے سناٹے میں
اس قدر زور سے ہنستا ہوں کہ ڈر جاتا ہوں

مجھ سے پوچھے تو سہی آئینہ خانہ میرا
خال و خد لے کے میں ہم راہ کدھر جاتا ہوں

دل ٹھہر جاتا ہے بھولی ہوئی منزل میں کہیں
میں کسی دوسرے رستے سے گزر جاتا ہوں

سہما رہتا ہوں بہت حلقۂ احباب میں میں
چار دیوار میں آتے ہی بکھر جاتا ہوں

میرے آنے کی خبر صرف دیا رکھتا ہے
میں ہواؤں کی طرح ہو کے گزر جاتا ہوں

میں نے جو اپنے خلاف آپ گواہی دی ہے
وہ ترے حق میں نہیں ہے تو مکر جاتا ہوں

Published inGazals

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: