Skip to content

خوف کے تاریک زنداں میں بٹھایا جائے گا

خوف کے تاریک زنداں میں بٹھایا جائے گا
ہم پریشاں حال لوگوں کو ستایا جائے گا

چرچ ، کعبے ، مسجد و مندر کی ویرانی تو دیکھ
روٹھ بیٹھا جب خدا ، کیسے منایا جائے گا

خالق و مخلوق پر یکساں پڑی اُفتاد یہ
سو دعا کو معجزے سے جا ملایا جائے گا

پھر کبھی غنچے کِھلے تو جشن کا سوچیں گے ، پر
اِس بہاراں کا تو ماتم ہی منایا جائے گا

کیا خبر تھی لمس کی برکت کو ترسیں گے یہاں
ہاتھ تک لگتا نہیں ، دل کیا لگایا جائے گا

روشنی کے سب حوالوں کو نِگل جائے گی رات
اِن چراغوں کو بھی دریا میں بہایا جائے گا

پھول ، تتلی ، پیڑ ، جگنو ، رنگ ، خوشبو ، چاندنی
ہم نہ ہوں گر ، یہ تماشا کیوں رچایا جائے گا ؟

ایک جھٹکے میں زمین و آسماں بدلے گئے
کیا مرے نقصاں کا اندازہ لگایا جائے گا ؟

برسرِ پیکار سب ہیں ، یہ لڑائی سب کی ہے
ایک بھی ہارا اگر ، اپنا پرایا جائے گا

ان گنت صدیوں کا کچھ دن میں تمدّن لے اُڑی
اے کرونا کی وبا ، کب تیرا سایہ جائے گا

نوعِ انساں کی ترقی کے سفر کی خیر ہو
یہ نیا عفریت بھی اک دن ہرایا جائے گا

Published inGazals

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: