Skip to content

ازل سے ایک ہجر کا اسیر ھے،اخیر ھے

ازل سے ایک ہجر کا اسیر ھے،اخیر ھے
یہ دل بھی کیا لکیر کا فقیر ھے،اخیر ھے

ہمارے ساتھ حادثہ بھی دفعتا” نہیں ہوا
جو ہاتھ میں نصیب کی لکیر ھے،اخیر ھے

ہمارے قتل پر ہمیں ہی دوش دے رہے ہیں آپ
جناب من جو آپ کا ضمیر ھے،اخیر ھے

اسی طرف بھڑک رہی ھے آگ زور شور سے
اسی طرف ہی روشنی کثیر ھے، اخیر ھے

اسی لیے اسیر ہوں میں سر زمینِ جھنگ کا
سنا ھے میں نے جھنگ کی جو ہیر ھے،اخیر ھے

ہرا رھے گا عمر بھر جو زخم آپ سے ملا
جناب کی کمان میں جو تیر ھے،اخیر ھے

بہار نے کیا بھی تو خزاؤں کا بھلا کیا
یہ زندگی بھی موت کی سفیر ھے،اخیر ھے

Published inUncategorized

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: