غرورِنار میرے پاؤں میں پڑا ہوا تھا
میں خاک تھا سو میرا مرتبہ بڑا ہوا تھا
میں چاہتا تھا بتا دوں کہ دیوتا نہیں مَیں
مگر وہ حُسن مِرے نور سے ڈرا ہوا تھا
میں چاہتا تو زبانیں خاموش کر دیتا
مگر میں چپ تھا تیرے حکم پر رکا ہوا تھا
رحیم دن تھے،شفق دھوپ تھی،سجل شامیں
اِنھی دنوں میں مِرا تجھ سے رابطہ ہوا تھا
سو مَیں نے بات بدل دی گلے لگا کے اُسے
دُرست شخص غلط بات پر اڑا ہوا تھا
میرے خلاف تیرے کان کیوں نا بھرتے یہ لوگ
تیری جبیں پہ میرا نام جو لکھا ہوا تھا
سو ماں کی قبر پہ پہنچا لپٹ کے رونے لگا
دلیر بیٹا کسی بات پر دکھا ہوا تھا
ہم ایک ساتھ تھے اور اپنی اپنی نیند میں تھے
وہ سو رہی تھی علی اور میں۔۔۔ مرا ہوا تھا
Be First to Comment