کہ کبھی زمیں سے گزر گئے کبھی آسماں سے گزر گئے
تجھے ڈھونڈتے ہوئے چند لوگ کہاں کہاں سے گزر گئے
جہاں رک گئے تھے ترے قدم ابھی ہم وہاں سے گزر گئے
یہ نشاں بتا رہے ہیں کہ لوگ یہاں یہاں سے گزر گئے
تجھے ان کی کوئی خبر بھی ہے تجھے ان کا کوئی پتہ بھی ہے
جو ترے نشان تک آتے آتے خود اپنی جاں سے گزر گئے
تھے جو روشنی کا سبب وہ سارے دیے ہوا نے بجھا دیے
کہ جو لوگ رونق بزم تھے وہی اس جہاں سے گزر گئے
تری عاشقی کی قسم یہی ترے عاشقوں کی حیات ہے
کبھی ہم فلک پہ ٹھہر گئے کبھی لامکاں سے گزر گئے
ہیں گلی گلی میں عداوتیں ہیں مگر نگر میں رقابتیں
وہی لوگ جو کہ عظیم تر تھے وہی جہاں گزر گئے
کبھی اپنا جلوہ دکھا ہمیں کبھی طور بن کے جلا ہمیں
تری دید کے لیے خطرہ ضررو زیاں سے گزر گئے
جسے ڈھونڈتے ہوئے ہم نے اپنی تمام عمر گزاردی
جو ملا ہمیں وہی آستاں تو اس آستاں سے گزر گئے
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…