کیوں کسی اور کو دُکھ درد سناؤں اپنے
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چُھپاؤں اپنے
میں تو قائم ہوں تیرے غم کی بدولت ورنہ
یوں بِکھر جاؤں کہ خود ہاتھ نہ آؤں اپنے
شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لیے
تُو ملے تو میں تُجھے شعر سناؤں اپنے
تیرے رستے کا، جو کانٹا بھی میسر آئے
میں اُسے شوق سے کالر پر سجاؤں اپنے
سوچتا ہوں کہ بُجھا دوں میں یہ کمرے کا دِیا
اپنے سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے
اُس کی تلوار نے وہ چال چلی ہے اب کہ
پاؤں کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچاؤں اپنے
آخری بات مُجھے یاد ہے اُس کی انورؔ
روگ اُس کا نہ میں دِل سے لگاؤں اپنے
انورؔ مسعود
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…