کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری
کہاں بدلی ہیں تقدیریں ہماری
وطن تھا ذہن میں زندان نہیں تھا
چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا
بہاروں نے دئے وہ داغ ہم کو
نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو
گھروں کو چھوڑ کر جب ہم چلے تھے
ہمارے دل میں کیا کیا ولولے تھے
یہ سوچا تھا ہمارا راج ہوگا
سر محنت کشاں پر تاج ہوگا
نہ لوٹے گا کوئی محنت کسی کی
ملے گی سب کو دولت زندگی کی
نہ چاٹیں گی ہمارا خوں مشینیں
بنیں گی رشک جنت یہ زمینیں
کوئی گوہر کوئی آدم نہ ہوگا
کسی کو رہزنوں کا غم نہ ہوگا
لٹی ہر گام پر امید اپنی
محرم بن گئی ہر عید اپنی
مسلط ہے سروں پر رات اب تک
وہی ہے صورت حال اب تک
حبیب جالبؔ
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہووہی…
اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام Continue readingاجڑ رہے تھے محبت میں درج…
سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا Continue readingسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے Continue readingمجنوں نے شہر چھوڑا تو…
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں Continue readingاب کے تجدیدِ وفا کا نہیں…